صوبائی اسمبلی انتخابات: گورنر نے تاریخ دینے کے بعد یوٹرن لے لیا
گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے صوبائی اسمبلی کے لئے انتخابات کی تاریخ دینے کے بعد یوٹرن لیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو انتخابات ملتوی کرنے کے لئے خط لکھ ڈالا۔
گورنر حاجی غلام علی نے تفصیلی خط میں امن و امان سمیت مختلف وجوہات کو جواز بنا کر صوبائی انتخابات نہ کرانے کا مشورہ دیا ہے جبکہ گورنر نے صوبے میں تمام سیاسی پارٹیز کو سیاسی مہم کے لئے ایک جیسے ماحول کی عدم دستیابی کا بھی ذکر کیا اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب اشارہ کرکے الزام عائد کیا کہ عسکریت پسند ایک مخصوص پارٹی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو انہیں صوبے میں مصالحت کے نام پر واپس لے آئے ہیں۔
گورنر نے چند دن پہلے الیکشن کمیشن کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لئے 28 مئی کی تاریخ دی تھی لیکن اب انہوں نے کمیشن کو انتخابات نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں گورنر خیبر پختونخوا نے صوبے میں موجودہ امن و امان کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ خیبر پختونخوا اور بالخصوص نئے ضم قبائلی اضلاع میں سیکیورٹی کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے جبکہ ٹی ٹی پی سمیت درجن بھر کالعدم تنظیمیں صوبے میں فعال ہیں اور یہاں دہشت گروں کی ایک شیڈو حکومت بنی ہوئی ہے۔
خط کے مطابق پچھلے کئی مہنیوں کے دوران دہشت گردی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جن میں دہشت گردوں کا زیادہ تر ٹارگٹ سیکیورٹی اہلکار ہوتے ہیں جبکہ آخری پانچ مہینوں کے دوران مخلتف حملوں میں 130 پولیس اہلکاروں شہید اور 283 زخمی ہوئے ہیں۔ گورنر نے انکشاف کیا کہ ٹی ٹی پی صوبے میں بھتہ خوری میں بھی ملوث ہے اور صرف 2022 میں کاروباری افراد اور دیگر لوگوں سے 1 اعشاریہ 6 ارب روپے کے بھتے کا مطالبہ کر چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا خیبر پختونخوا اور پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم، ماہرین کیا کہتے ہیں؟
گورنر خط میں آئی جی خیبر پختونخوا کی جانب سے الیکشن کمیشن کو دیئے گئے تفصیلات کا بھی ذکر کیا ہے کہ صوبے میں اس وقت ساڑھے 56 ہزار پولیس اہلکاروں کی کمی ہے جبکہ الیکشن کی صورت میں سیاستدانوں کے تحفظ کے لئے 1500 ایف سی اہلکار کی مزید ضرورت ہے، انتخابی مہم اور انتخابات کے دوران سیکیورٹی فورسز کی یہ کمی اور ضروت صرف پاک فوج کی تعیناتی سے پوری ہوسکتی ہے جبکہ صوبے میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے ایسا کرنا فی الحال ممکن نہیں ہے۔
گورنر خیبر پختونخوا نے خط میں ملک اور صوبے کی معاشی حالات بھی فوری انتخابات کے لئے نا مساعد قرار دیئے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال سے ہم سب بخوبی آگاہ ہے، صوبہ خیبر پختونخوا بھی ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک کا 1 ہزار ارب روپے کا مقروض ہے۔ اس کے علاوہ صوبہ قبائلی علاقوں کے انضمام کے سلسلے میں بھی معاشی بحران کا شکار ہے، وفاق سے بھی انضمام کے لئے وعدے کے مطابق مالی تعاون نہیں مل رہا۔
خط میں مردم شماری اور حلقہ بندیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ گورنر نے اس ضمن میں ایک آئینی سقم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر صوبائی اسمبلی انتخابات تین مہینوں کے اندر ہوتے ہیں تو وہ پرانی حلقہ بندیوں پر ہوں گے جبکہ اس کے مقابلے میں ضرورت پڑنے پر ضمنی انتخابات اور قومی اسمبلی کے انتخابات نئی مردم شماری کے بعد کی جانے والی نئی حلقہ بندیوں پر ہوں گے جو بظاہر ایک آئینی سقم لگ رہا ہے۔
اس کے علاوہ پرانی حلقہ بندیوں پر وزیرستان، کرم اور اورکزئی سمیت کئی اضلاع سے عوام کی جانب سے اعتراضات بھی سامنے آئے ہیں۔
گورنر نے خط میں اس تکنیکی معاملے کی جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ اگر خیبر پختونخوا اور پنجاب میں قومی اسمبلی سے پہلے انتخابات ہوتے ہیں اور نئی حکومتیں وجود میں آتی ہیں تو خدشہ ہے کہ وہ حکومتیں پھر قومی اسمبلی کے انتخابات پر اثرانداز ہوں گی اس کے لئے الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ ملک کے تمام صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی دن منعقد کرائیں۔