سیاست

سپریم کورٹ کا خیبر پختونخوا اور پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم، ماہرین کیا کہتے ہیں؟

رفاقت اللہ رزڑوال

سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا اور پنجاب میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں دونوں صوبوں میں انتخابات 90 دنوں میں کرانے کا حکم دے دیا ہے تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ملک میں آئینی بحران پیدا ہوجائے گا کیونکہ نو رُکنی بینچ میں چار ججز نے سوموٹو لینے کی مخالفت کی تھی اور بینج سے الگ ہوگئے تھے جبکہ موجودہ دو ججز نے اختلاف کی اور 3 کی اکثریت سے فیصلہ جاری ہوا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں مختصر طور پر لکھا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں 90 دنوں کے اندر انتخابات کرائے جائے کیونکہ انتخابات پارلیمانی جمہوری نظام میں ایک اہم عنصر ہے۔

اس حوالے سے سپریم کورٹ کے وکیل نور عالم خان نے ٹی این این کو بتایا کہ آئین پاکستان کے مطابق جب بھی وفاق اور صوبائی حکومتیں اپنی پانچ سالہ مدت پوری کریں تو اسکے بعد کئیر ٹیکر گورنمنٹ چارج سنبھالی گی اور پھر الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ جاری کردہ فیصلے کا مقصد یہی ہے کہ 90 دن میں الیکشن کرانا نہیں بلکہ تین ماہ کے اندر اندر تاریخ کا اعلان ہونا ہے جبکہ یہ ان حالات میں ممکن ہے جب چاروں صوبائی اور مرکزی حکومتیں ختم ہوکر جنرل الیکشن کا اعلان کریں۔

نور عالم خان کہتے ہیں” الیکشن کی تاریخ کا اعلان پارلیمنٹ جبکہ پر عمل درآمد کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے، اس میں عدلیہ، وزیراعظم اور گورنر کا کوئی اختیار نہیں، اگر عدلیہ اس طرح کے فیصلے کرتے جائیں تو اس سے جوڈیشری کا وقار مجروح ہوسکتا ہے۔” انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے سیاسی معاملات پارلیمنٹ کے اندر حل کریں، ‘میرے خیال میں اگر پارلیمنٹ مضبوط ہو تو عدلیہ مضبوط ہوگی اور جب عدلیہ مضبوط ہوگی تو عوام مضبوط ہوگی، اسکے علاوہ اگر پارلیمنٹ کے فیصلے عدلیہ تک لے جایا جائے تو پھر یہ عوام کی مقدس ووٹ کی توہین سمجھتا ہوں۔’

سپریم کورٹ کے فیصلے کو سیاسی تجزیہ کار جمہوریت کی پختگی اور سول بالادستی کی جانب ایک اہم قدم تصور کرتے ہیں۔

سیاسی و پارلیمانی امور کے ماہر قریش خٹک نے ٹی این این کو بتایا کہ پاکستان کے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سیاسی حالات و واقعات ہمیشہ کیلئے ایک جیسے نہیں رہتے، ان حالات کو دیکھتے ہوئے بروقت اور آئین کے مطابق انتخابات کا انعقاد خوش آئندہ ہے۔

قریش خٹک کے خیال میں دنیا کے بیشتر ممالک میں صوبائی اور وفاقی سطح پر الیکشن کا ایک ہی دن مقرر نہیں ہوتا اور نہ ہی ایک ہی دن اسمبلیوں کی مدتیں پوری ہوسکتی ہے اس لئے یہ ضروری نہیں کہ بیک وقت انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔

قریش کہتے ہیں "اگر ملک کے حالات ٹھیک نہ ہو اور اسی بہانے الیکشن ملتوی ہوتا جا رہا ہے تو یہ آئین پاکستان نے 90 دن کے حکم کے خلاف ورزی تصور ہوگی جس سے مزید آئینی بحران پیدا ہوگا۔’

پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے 90 روز میں الیکشن کے فیصلے کو آئین کی فتح قرار دیا، پارٹی چئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ ہم عدالتِ عظمیٰ کےفیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں، آئین کا تحفظ سپریم کورٹ کا فرض تھا اور معزز ججز نے آج اپنے فیصلے کے ذریعے یہ فرض نہایت بہادری سے نبھایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی پر تصدیق کی ایک مہر ہے، ہم اپنی جیل بھرو تحریک معطل کررہے ہیں اور خیبرپختونخوا اور پنجاب میں انتخابی مہم کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں خیبرپختونخوا کے گورنر کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مشاورت سے تاریخ جبکہ پنجاب میں صدر پاکستان کو الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان سپریم کورٹ کے فیصلے کی تائید کرے گی؟  اس حوالے سے جب ٹی این این نے خیبرپختونخوا کے الیکشن کمیشن کے ترجمان سہیل احمد سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ کمیشن نے وفاقی سطح پر کرائی گی اور وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ کمیشن کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا۔

سپریم کورٹ کے بنچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ مقدمے کی کاروائی کی ازخود نوٹس حقیقت اور حالات کی نظر میں غیر منصفانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کے تحت یہ کیس ناقابل سماعت، غیر ضروری اور جلدبازی ہے جبکہ یہی آئینی معاملات پہلی ہی سے صوبائی ہائی کورٹس میں زیرالتو ا ہے اس لئے سپریم کورٹ ازخود نوٹس نہیں لے سکتی ہے اور ازخود نوٹس کی کاروائی مسترد کرتے ہیں۔

دوسری جانب وفاقی وزیر قانون نے کہا ہے کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں کیونکہ 23 فروری کو دو ججز نے کہا تھا کہ یہ کیس قابل سماعت نہیں جبکہ آج کے فیصلے میں 3 ججز نے کیس کو قابل سماعت قرار دیا۔

یاد رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے 22 فروری کو خیبرپختونخوا اور پنجاب میں عام انتخابات کے ملتوی ہونے کے خلاف ازخود نوٹس لیا تھا جس پر اگلے روز 23 فروری کو سماعت شروع کی جس میں سپریم کورٹ کے 9 ججز پر مشمتل بنچ بنایا گیا تاہم مسلم لیگ ن نے بنچ میں شامل دو ججوں جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن پر اعتراض کیا تھا جس کی وجہ سے وہ بنچ سے الگ ہوگئے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ اور یحیٰ آفریدی نے ازخودنوٹس لینے پر اختلاف کرکے الگ ہوگئے تھے، اسکے بعد پانچ ججز نے ازخودنوٹس کی سماعت کی تھی جس کا فیصلہ کل محفوظ ہوا تھا اور آج سنا دیا گیا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button