بیٹنی اور مروت اقوام کا مشترکہ دھرنا تیسرے ہفتے میں داخل، ان کے مطالبات کس حد تک جائز ہیں؟
غلام اکبر مروت
خیبرپختونخوا کے جنوبی ضلع لکی مروت میں دو ہفتے قبل شروع ہونے والا بیٹنی اور مروت قبیلے کا مشترکہ دھرنا تیسرے ہفتے میں داخل ہو گیا ہے۔ تاہم انسداد دہشت گردی کے اقدام کے طور پر علاقے میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند ہونے کی وجہ سے یہ دھرنا میڈیا اور انتظامیہ کا توجہ حاصل کرنے میں ناکامی سے دوچار ہے۔ دھرنا منتظمین کے مطابق لکی مروت کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اس احتجاج پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔
مظاہرین، جن کا تعلق بیٹنی اور مروت قبیلوں سے ہے، حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ خطے میں اپنی رٹ قائم کرتے ہوئے امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنائے۔
دھرنے کے منتظمین میں شامل رفیع اللہ خان نے ٹی این این کو بتایا کہ وہ اپنے علاقے میں تمام دیہاتوں کو گیس کی فراہمی اور ہزاروں ایکڑ اراضی کو سیراب کرنے کے لیے پہلے سے موجود نہری منصوبے مروت کینال کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
لکی مروت صوبے کے سب سے پسماندہ اضلاع میں سے ایک ہے۔ متنظمین کے مطابق پشاور- کراچی انڈس ہائی وے سے تجوڑی تک پہلے سے موجود 22 کلومیٹر سڑک کی دوبارہ تعمیر کے لئے 560 ملین روپے کی منظوری اور ریلیز کے باوجود یہ منصوبہ بدعنوانی کی وجہ سے ابھی تک نامکمل ہے۔
رفیع اللہ نے الزام لگایا کہ "تمام سرکاری محکموں بشمول انسداد بدعنوانی کے ذمہ داروں نے اس معاملے پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔”
ان کا کہنا تھا کہ یہ احتجاج دہشت گردی کے ساتھ ساتھ علاقے کی پسماندگی کے خلاف ہے کیونکہ بیٹنی اور مروت قبیلوں نے اپنے مسائل کے بہتر حل کیلئے اتحاد قائم کیا ہے اور وہ اپنے حقوق کے لیے گزشتہ دو ہفتوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔
دھرنے میں شریک ایک اور نوجوان رہنماء شاہد اللہ نے بتایا کہ ہم علاقے میں امن چاہتے ہیں۔ ہم کسی کو موردالزام نہیں ٹھہراتے کہ امن کس نے خراب کیا ہے یا کس کی وجہ سے خراب ہورہا ہے بلکہ ہم ریاست پاکستان سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ہمارے لئے امن و امان یقینی بنائے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہمارے اس دھرنے کو تمام سیاسی جماعتوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس دھرنے میں مروت قومی جرگہ کے امیر الحاج محمد اسلم خان عیسک خیل، پی ٹی آئی کے ڈاکٹر اقبال مروت، جماعت اسلامی کے ضلعی امیر عزیزاللہ خان، عوامی نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر ملک علی سرور خان، معروف سماجی شخصیت ملک وقار احمد خان، انعام اللہ خان خوائیدادخیل، عدنان خان، اختر گل بیٹنی، چیئرمین علی خان اور دیگر نے نہ صرف دھرنے میں شرکت کی ہے بلکہ ہرقسم کے تعاون کا یقین بھی دلایا ہے۔
شاہد اللہ خان نے مزید بتایا کہ ضلع میں امن و امان کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا رہی۔ مظاہرین دیگر مطالبات کے ساتھ حکومت سے اس مسئلے کو حل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ احتجاج علاقے میں دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے کے خلاف بھی ہے، جسے حکام نے بڑی حد تک نظر انداز کر دیا ہے۔
انعام اللہ خان کا دعویٰ ہے کہ دہشت گرد علاقے میں دوبارہ منظم ہو گئے ہیں اور پولیس پر تقریباً روزانہ حملے ہو رہے ہیں۔
ہمارے چار اہم مطالبات ہیں جن میں حکومتی رٹ کی بحالی یعنی امن و امان کا قیام، تجوڑی روڈ کی تعمیر، مروت کینال کی بحالی اور پورے ضلع کو گیس کی فراہمی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے مطالبات کی منظوری تک دھرنا جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔
نوجوان شاہد اللہ خان نے بتایا کہ ہمارے دھرنے کو کل تین ہفتے پورے ہوجائیں گے اس لئے ہم اس کے پلان بی کی طرف جارہے ہیں۔
پلان بی کے تحت ہم اپنے دھرنے کو 9 مارچ سے ڈسٹرکٹ کمپلیکس تاجہ زئی کے سامنے منتقل کررہے ہیں۔ جہاں ڈپٹی کمشنر، ڈی پی او سمیت تمام ضلعی افسران کے دفاتر ہیں۔ وہاں ہمارے ساتھ ضلع لکی مروت کے دیگر علاقوں سے بھی لوگ شرکت کرینگے۔
دھرنا مظاہرین کے الزامات کس نوعیت کے ہیں اور مطالبات کس حد تک جائز ہیں؟
1: تیل اور گیس کی پنجاب سپلائی
تقریباً ڈیڑھ سال پہلے خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع لکی مروت سے تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے تھے۔
او جی ڈی سی ایل کی طرف سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا تھا کہ اس دریافت سے 11 اعشاریہ 8 ایم ایم سی ایف ڈٰی گیس اور 945 بیرل یومیہ تیل بھی حاصل ہوگا۔ او جی ڈی سی ایل کے مطابق کاوا گڑھ فارمیشن میں یہ پہلی دریافت ہے، دریافت ذخائر سے ناصرف ملک میں توانائی کی بڑھتی ضروریات پوری کرنے میں مددملے گی بلکہ حالیہ ڈویلپمنٹ ایکسپلوریشن کے لیے نئے مقام کھولنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
اس سلسلے میں پچھلے سال جون 2022ء میں ماڑی پیٹرولیم کے سربراہ فہیم حیدر نے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف سے ملاقات میں شمالی وزیرِ ستان اور بنوں ڈویژن میں دریافت شدہ ذخائر کے بارے میں بریفنگ دی۔
اس موقع پر وزیر مملکت برائے پیٹرولیم سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک اور سیکریٹری پیٹرولیم بھی موجود تھے۔
اس موقع پر وزیراعظم نے ہدایات جاری کیں کہ یہ ذخائر عوام کو گیس کی قلت سے نجات دلانے کے لئے استعمال میں لائے جائیں۔
2: مروت کینال کی بحالی
ضلع بنوں میں باران ڈیم سے نکلنے والی مروت کینال میں پانی کا بہاو گزشتہ 23 سال سے بند ہے۔ کیونکہ باران ڈیم 87 فیصد مٹی سے بھر چکا ہے۔
باران ڈیم پر 1954 میں کام شروع ہوا اور 1962 میں تکمیل کو پہنچا۔ باران ڈیم میں پانی کی گنجائش 98ہزار 500 ایکڑ تھی۔
مروت کینال نہر سے لکی مروت کی ایک لاکھ ستاسی ہزار ایکڑ اراضی سیراب ہوتی تھی۔
3: امن و امان کا مسئلہ
لکی مروت میں امن و آمان ایک بار پھر ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ صرف گزشتہ دو مہینوں میں پولیس پر 11 حملے ہوئے ہیں۔ جس میں چارپولیس اہلکار شہید، پانچ زخمی اور تین گاڑیوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح فوج کے بھی دو جوان قتل، دو زخمی، چار عام افراد بھی جاں بحق ہوئے ہیں۔ جبکہ انسداد دہشت گردی کے واقعات میں بھی 20 افراد کو ہلاک جبکہ تین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔