ضمنی انتخاب: کون سا حلقہ عمران خان کیلئے خطرے کی گھنٹی؟
محمد فہیم
ملک بھر کے 9 قومی اسمبلی کے حلقوں پر ضمنی انتخاب 16 اکتوبر کو ہونے جا رہے ہیں جن میں تین قومی اسمبلی کے حلقے خیبر پختونخوا کے بھی شامل ہیں، این اے 45 کرم پر امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باعث انتخاب کو ملتوی کیا گیا ہے۔ ان تمام حلقوں پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان امیدوار ہیں جبکہ ان کا مقامی تین حلقوں پر عوامی نیشنل پارٹی اور ایک حلقہ پر جمعیت علماء اسلام کے امیدوار کے ساتھ ہے۔ ان تمام حلقوں پر اگر نظر ڈالی جائے تو عمران خان کی پوزیشن مضبوط ہے تاہم یہ پوزیشن عمران خان کے نام کی وجہ سے ہے۔ اگر پارٹی کارکردگی کو دیکھا جائے تو پی ٹی آئی سے شہری مطمئن نہیں ہیں تاہم موجودہ مہنگائی اور توانائی کے بحران کے پی ڈی ایم امیدواروں کیلئے بھی مسائل کھڑے کر دیئے ہیں۔
این اے 22 مردان
مردان کے اس حلقے سے جمعیت علماء اسلام کے مولانا قاسم امیدوار ہیں۔ روحانی شخصیت 2018 میں بھی امیدوار تھی تاہم انتہائی کم فرق کے ساتھ تحریک انصاف کے علی محمد خان یہاں سے کامیاب ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی کے علی محمد خان نے 58 ہزار 577 جبکہ متحدہ مجلس عمل کے مولانا محمد قاسم نے 56 ہزار 318 ووٹ حاصل کئے تھے۔
اس حلقے میں پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار مولانا محمد قاسم ہیں اور اگر پی ڈی ایم کا ووٹ دیکھا جائے تو 2018 کے اسی انتخاب میں مسلم لیگ ن کے امیدوار جمشید خان نے 36 ہزار 625، عوامی نیشنل پارٹی کے ملک امان خان نے 27 ہزار 104 اور پیپلز پارٹی کے شعیب عالم خان نے 13 ہزار 477 ووٹ حاصل کئے تھے۔ تین حلقوں میں یہ واحد حلقہ ہے جہاں پی ڈی ایم کا ووٹ بہت زیادہ ہے اور تحریک انصاف کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس وقت تمام جماعتیں ایک ساتھ ہیں اور عمران خان کا مقابلہ مولانا قاسم کے ساتھ ہے۔
این اے 24 چارسدہ
اس حلقے کی بات کی جائے تو اس حلقے سے عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اور امیدوار ایمل ولی کے والد اور دادا منتخب ہو چکے ہیں اور اس بار انہیں پی ڈی ایم کی حمایت حاصل ہے۔ چارسدہ کے حلقے این اے 24 سے 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے فضل محمد خان نے 83 ہزار 495 ووٹ حاصل کئے جبکہ ان کے مدمقابل ایمل ولی خان کے والد اور عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے 59 ہزار 483 ووٹ حاصل کئے۔ اسی طرح جمعیت علماء اسلام کے امیدوار مولانا گوہر شاہ نے 38 ہزار 252 ووٹ لئے تھے۔
حالیہ بلدیاتی انتخابات میں یہ حلقہ جمعیت کا گڑھ ثابت ہوا ہے۔ 16 اکتوبر کے انتخابات میں جمعیت کے ووٹر کا ایمل ولی کو سپورٹ کرنا ان کی کامیابی کیلئے انتہائی ضروری ہے جبکہ اس حلقے میں پی ٹی آئی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور تمام تر توجہ فضل شکور خان کے صوبائی حلقہ پر مرکوز ہے جہاں سے پی ٹی آئی کافی ووٹ نکال سکتی ہے۔
این اے 31 پشاور
عوامی نیشنل پارٹی کے بزرگ رہنما حاجی غلام احمد بلور اس حلقے سے پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار ہیں اور وہ یہ نشست تین مرتبہ عام انتخابات جبکہ دو مرتبہ ضمنی انتخاب میں جیت چکے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ آفتاب احمد خان شیرپاﺅ اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے جب یہ سیٹ خالی کر دی تھی تو ضمنی انتخاب میں غلام احمد بلور نے کامیابی حاصل کی۔
1988 میں آفتاب احمد شیر پاﺅ نے غلام بلور کو شکست دی تھی تاہم وزیراعلیٰ کا عہدہ ملنے کے باعث انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی تھی اور ضمنی انتخاب میں غلام بلور کامیاب ہو گئے تھے/ 1990 کے انتخابات میں غلام احمد بلور نے بے نظیر بھٹو کو شکست دی تھی، 1993 میں پیپلز پارٹی کے سید ظفر علی شاہ ، 1997 میں غلام بلور، 2002 میں متحدہ مجلس عمل کے شبیر احمد خان اور 2008 میں غلام احمد بلور نے کامیابی حاصل کی تھی۔
2013 میں اس حلقے سے عمران خان کامیاب ہوئے تاہم انہوں نے یہ سیٹ چھوڑ دی اور ضمنی انتخاب میں غلام بلور کامیاب ہوئے جبکہ 2018 میں پی ٹی آئی کے شوکت علی یہاں سے کامیاب ہوئے۔ 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر حصہ لینے والے شوکت علی نے 87 ہزار 975 ووٹ حاصل کر کے 42 ہزار 526 ووٹ حاصل کرنے والے اے این پی کے غلام احمد بلور کو شکست دی تھی۔
ضمنی انتخابات کی تیاریاں
ان تین حلقوں پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 14 لاکھ 50 ہزار سے زائد ہے جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 8 لاکھ 8 ہزار سے زائد جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 6 لاکھ 42 ہزار سے زائد ہے۔ ان انتخابات کے لئے مجموعی طور پر 979 پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن میں مرد پولنگ اسٹیشنوں کی تعداد 429، خواتین پولنگ اسٹیشنوں کی تعداد 351 جبکہ 199 پولنگ اسٹیشن مشترکہ ہیں۔
ان پولنگ اسٹیشنوں میں مجموعی طور پر 745 پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس اور 234 حساس قرار دیئے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے انتظامیہ کے ساتھ اجلاس منعقد کئے ہیں تاکہ یہ مرحلہ بھی بہتر طریقے سے انجام پائے۔