آڈیو لیکس: یہ اونٹ آخر کس کروٹ بیٹھے گا؟
محمد فہیم
پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور کسی بھی ایٹمی طاقت کی سکیورٹی اور اثاثوں کا تحفظ بھی اسی ملک کی اہمیت کے مطابق ہوتا ہے تاہم سائبر ایسی دنیا ہے جہاں نہ امریکہ کی چلتی ہے اور نہ روس اور چین کی۔۔ تو پھر پاکستان کی سکیورٹی کیا کرے گی؟
وزیرا عظم ہاﺅس انتہائی اہم مقام ہے اور اس جگہ جو فیصلے ہوتے ہیں وہ 22 کروڑ پاکستانیوں کے مستقبل کیلئے ہوتے ہیں لیکن ایک ہفتے میں تین اہم آڈیو لیکس نے اس اہم عمارت میں ہونے والی سرگوشیوں کی گونج دنیا تک پہنچا دی ہے۔ سب سے پہلے مریم نواز کے داماد کیلئے بھارت سے مشینری کی درآمد پر وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کی گفتگو اور اس کے بعد وفاقی کابینہ کی تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے استعفوں سے متعلق اجلاس کی روداد سامنے آنے کے بعد مسلم لیگ مکمل طور پر خاموش ہو گئی اور ان کے پاس کسی قسم کا جواز ہی نہیں تھا۔
تحریک انصاف بھی کھل کر سامنے آئی اور سکیورٹی اداروں کو بھی نشانہ بنایا جبکہ آڈیو لیکس کی مزید کئی اقساط کے اجراء کا بھی اعلان کر دیا۔ منگل کے روز عمران خان پشاور کے دورے پر تھے اور اسی دورے میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ اب اگلی آڈیو مریم نواز اور نواز شریف کی آئے گی تاہم بدھ کی صبح جو آڈیو آئی اس نے تہلکہ مچا دیا؛ عمران خان وزیر اعظم ہاﺅس میں اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے ساتھ گفتگو کر رہے ہیں اور اس گفتگو میں وہ امریکہ سے پاکستانی سفیر کے خط سے متعلق منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس میں امریکی دھمکی اور سازش کی مکمل منصوبہ بندی کی گئی۔
اس آڈیو لیک کا عمران خان نے انکار نہیں کیا بلکہ یہ کہہ دیا کہ سائفر ہی لیک ہو جائے تو سب کو معلوم ہو جائے تاہم اس آڈیو لیکس نے پاکستان کی ڈگمگاتی اور غیریقینی صورتحال سے دوچار سیاست کو عارضی کنارہ فراہم کر دیا ہے۔
پاکستان میں ترکیہ اردو کے ایڈیٹر اور سینئر صحافی و تجزیہ کار آصف خان اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ان آڈیو لیکس کا نقصان عمران خان کی سیاست کو ہو گا، ان کی سیاست اب ویسی نہیں رہی جس طرح ماضی میں تھی اور ہر لیک ان کے دعوے کی نفی کرتی نظر آ رہی ہے، ماضی میں سوشل میڈیا پر جو بیانیہ بنایا گیا اب ماحول ویسا نہیں ہے اور ان کے خلاف محاذ کھلتے جا رہے ہیں، عمران خان کچھ عرصہ قبل جس طرح مقبول تھے اب وہ مقبولیت مزید بڑھنے کی بجائے گھٹنا شروع ہو گئی ہے۔
آصف خان کے مطابق عمران خان سوشل میڈیا کی بنیاد پر اپنا بیانیہ بناتے ہیں لیکن کچھ عرصہ میں جو کچھ سامنے آیا ہے اور ان کے ٹرولز جو سوشل میڈیا کو منیج کرتے رہے ہیں اس سے یہ بات واضح ہے کہ وہ اصلیت نہیں ہے بلکہ ایک دھوکے کی دنیا ہے، ان آڈیو لیکس سے اب ان کی مخالف جماعتیں کس قدر فائدہ اٹھائیں گی یہ وقت بتائے گا تاہم یہ حقیقت ہے کہ ان آڈیو لیکس سے عمران خان کو نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس آڈیو کا لیک ہونا انتہائی خطرناک ہے اور سکیورٹی رسک ہے کہ کس طرح یہ آڈیو لیک ہو گئی، کیا اتنا ہی آسان ہے وزیر اعظم کے دفتر میں بات چیت لیک کرنا؟ اس حوالے سے تحقیقات لازمی ہیں۔
پشاور کی بے نظیر بھٹو وومن یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں اسسٹنٹ پروفیسر اور تجزیہ کار ڈاکٹر زرمینہ بلوچ نے اس حوالے سے بتایا کہ عمران خان کا ووٹر اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں یا جھوٹ اور کون سی لیک کب کیا انکشاف کرتی ہے، وہ ووٹر ان کے ساتھ ہے اور ان کو کبھی نہیں چھوڑے گا، مسئلہ ان لوگوں کا ہے وہ عمران خان کے ساتھ اس لئے ہو گئے تھے کیونکہ عمران خان کا بیانیہ مضبوط تھا اور وہ لوگ یہ مانتے تھے کہ امریکہ نے عمران خان کی حکومت ختم کی ہے اس لئے وہ عمران خان کے ساتھ تھے لیکن اس آڈیو لیک نے ان کیلئے مسائل کھڑے کر دیئے ہیں۔
ڈاکٹر زرمینہ بلوچ کے مطابق عمران خان جلد از جلد انتخابات کے خواہشمند ہیں اور اس ضمن میں پریشر ڈالنے کیلئے انہوں نے لانگ مارچ کا اعلان بھی کر دیا ہے لیکن تاریخ اب تک نہیں دی اور اس آڈیو لیک کے سامنے آنے کے بعد نہیں لگتا کہ وہ لانگ مارچ کی تاریخ دینے میں اب جلدی کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹر اسحق ڈار کی واپسی سے یہ بات تو واضح ہے کہ موجودہ حکومت کہیں نہیں جا رہی اور یہ جانتی ہے کہ اپنی مدت مکمل کرے گی لہٰذا عمران خان کیلئے آنے والے وقت میں مشکلات مزید بڑھیں گی؛ اگر اس طرح کی چند مزید آڈیو لیکس آ گئیں تو عمران خان کیلئے سنبھالنا آسان نہیں ہو گا تاہم ان آڈیو لیکس کا یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف اب دونوں محتاط ہو گئی ہیں۔
دوسری جانب وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے ان آڈیو لیکس کے حوالے سے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بھی تشکیل دے دی ہے جبکہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور موجودہ وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کی ان آڈیوز کا فرانزک کرانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔