تعلیمکالم

تعلیمی ایمرجنسی: بچوں کا اللہ ہی نگہبان!

ڈاکٹر سردار جمال

میرے خیال میں ہمارے ہاں تعلیمی ایمرجنسی کا صحیح اطلاق ہو رہا ہے مگر ہم کند ذہن اس وطن کے باسی ایمرجنسی کو غلط معنوں میں لے رہے ہیں، عام طور ایمرجنسی کی اصطلاح کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی زندہ چیز زندگی اور موت کے بین بین ہو، ایمرجنسی کا مطلب ہوتا ہے کسی زندہ چیز کی زندگی کے امکانات بہت کم ہونا اور موت کی طرف جانے کے امکانات کا زیادہ ہونا، ایمرجنسی کے معنی ہیں ایک زندہ انسان کے پاؤں قبر ہونا وغیرہ مگر ایمرجنسی کے ساتھ ایک اور لفظ کا اضافہ کیا جاتا ہے تو اس سے ایمرجنسی لفظ واحد سے مرکب بن جاتا ہے، مرکب الفاظ کے معنی واحد لفظ سے بالکل مختلف ہو جاتے ہیں، مثال کے طور پر تعلیمی ایمرجنسی کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم کے حوالے سے پہلے سے موجود خامیوں کا خاتمہ کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ تعلیم کو پروان چڑھانے کی خاطر نت نئے طریقے اپنانا اور اتنی ساری تعلیمی اصلاحات سامنے لے آنا کہ کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہ سکے۔

جہاں تک پختونخوا میں تعلیمی ایمرجنسی کی بات چل رہی تھی تو گذستہ 9 سال سے یہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے، عجیب بات تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اتنے طویل دور حکومت میں سکول، کالج اور یونیورسٹی وغیرہ بنانا تو دور کی بات ہے تعلیمی اداروں کو فرنیچر تک فراہم کرنے کی توفیق بھی اس حکومت کو نصیب نہ ہو سکی، اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی سٹاف کی کمی کا مسئلہ بھی جوں کا توں ہے۔ ایڈمینسٹریشن کے حوالے سے حالات بہت مایوس کن ہیں، تمام صوبے میں سیاسی مداخلت کی جا رہی ہے اور ہر کرسی پر سیاسی درباری افسر کو بٹھایا گیا ہے، چونکہ عیاشیوں اور دہشت گردوں کو بھتے دینے کی بدولت صوبہ دیوالیہ ہو چکا ہے اس لئے خالی آسامیاں پُر کرنا اور نئی بھرتیاں کرنا اب حکومت وقت کے بس کی بات نہیں ہے۔

صوبے کے دوسرے مسائل میں تعلیمی مسائل دیگر مسائل سے دو قدم آگے ہیں کیونکہ برائے نام تعلیمی ایمرجنسی کی رو سے تعلیمی میدان میں اور خاص کر خیبر پختونخوا میں نت نئے تجربات کئے جاتے ہیں، ان تجربات میں سے دو تجربات پیش پیش ہیں؛ اول یہ کہ حکومت وقت کے منہ سے کئی سالوں سے یکساں نظام تعلیم کی بات نکل رہی تھی، کئی سال یعنی ایک دہائی گزرنے کے بعد یکساں نظام کی بات تھوڑی حد تک پہنچنے والی تھی کہ یک دم قومی خزانہ خالی نظر آیا، انصاف حکومت شش و پنج میں پڑ گئی کہ ایک طرف امتحانات سر پر آ گئے اور دوسری طرف کتب چھاپنے کے لئے پیسہ ہے نہیں، لہٰذا ایک ترکیب سوچی گئی کہ کیوں نا سالانہ امتحانات معلق کیے جائیں، ایسا کرنے کے لئے کرونا کا بہانا بنا کر امتحانات تین مہینے لیٹ کر دیئے گئے جس سے ایک نئی تاریخ یہ رقم ہوئی کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں چھٹیاں بچوں نے بغیر ہوم ورک کے گزار دیں۔

گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد بچے نئے کلاسوں میں تو بیٹھ گئے مگر درسی کتب کے بغیر سارا دن دھوپ میں گزارتے تھے جس کی وجہ سے روزانہ کے حساب سے بچے ہیٹ سٹروک کے شکار ہو کر بیمار پڑ جاتے تھے، دوسری طرف ستم ظریفی یہ تھی کہ افسران بالا کی طرف سے جملہ سٹاف اور بچوں کی سو فیصد حاضری یقینی بنانا تھی، اللہ اللہ کر کے اس دوران سیلاب کی آفت بہانا بن کر تمام سکول بند کرا دیئے گئے مگر سیلاب نے بے وفائی کی اور بہت جلد پیچھے چلا گیا اور ایک بار پھر بے یار و مددگار بچے سکول آنا شروع ہوئے مگر پھر بھی درسی کتب ندارد مگر جملہ ٹیچنگ سٹاف اور بچوں کی حاضری ضروری اور اہم گردانی گئی۔

شکر ہے اب تین مہینے بعد درسی کتب کی ترسیل شروع ہوئی یعنی روزانہ کی بنیاد پر دس، بیس کتب سکول کو پہنچائی جاتی ہیں اور اسی طرح بچوں کو آدھی کتب مل گئی ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ آئندہ تین مہینوں میں باقی کتب بھی مل جائیں گی۔

دوسری جو اہم بات ہے جس طرف توجہ مبذول کرنی ہے وہ ہے انصاف حکومت کا ایک نیا تجربہ، تجربہ یہ تھا کہ پہلے سے محکمہ تعلیم میں یہ اصول چلا آ رہا تھا کہ تربیت یافتہ لڑکے بحیثیت استاد اور لڑکیاں بحیثیت استانی بھرتی کی جاتی تھیں مگر انصافی حکومت نے صبح کی آذان میں ایک نیا نعرہ سنا دیا، نعرہ یہ تھا کہ اب ٹیچنگ سٹاف بغیر تربیت بھرتی کیا جائے گا، چلو یہ کام درست سہی مگر درمیان میں ایک اور تباہ کن بات لائی گئی اور بات یہ تھی کہ غیرتربیت یافتہ ٹیچنگ سٹاف استاد یا استانی بننے کے بعد ٹریننگ لیں گے، ایسا کرنے کے لئے ٹرینڈ اساتذہ شاگرد اور ٹرینڈ اساتذہ ٹیچر بن گئے، اس طرح یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے اور جاری رہے گا۔

اس طریقے سے ہر سکول کے آدھے اساتذہ کلاسوں سے غیرحاضر ہیں، وجہ یہ ہے کہ نئے اساتذہ ٹریننگ لے رہے ہیں اور پرانے اساتذہ ٹریننگ دے رہے ہیں، مطلب یہ ہوا کہ خیبر پختونخوا کے کل اساتذہ کی آدھی تعداد ٹریننگز میں لگی ہوئی ہے اور بچے جس طرح خالی ہاتھ سکول جاتے ہیں بالکل اسی طرح خالی ہاتھ لوٹ آتے ہیں کیونکہ قوم کے بچے کلاس میں مقرر کئے گئے مانیٹر کے رحم و کرم پر ہیں، کلاس میں بچے سارا دن خاموشی سے گزارتے ہیں اور جو بچہ شور شرابہ کرتا ہے تو اس بچے کو پی ٹی کے ہاتھوں مار پڑتی ہے، بلکہ اکثر بچوں سے سنا ہے کہ اس ہفتے میں سکول نہیں جاؤں گا کیونکہ میرے استاد کی ٹریننگ ہے اور ٹریننگ کا یہ قضیہ ہر مہینے میں ہفتہ ہفتہ چلتا رہتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اساتذہ کے انتخاب کے لئے پرانا طریقہ اپنایا جائے اور اگر یہ طریقہ حکومت وقت کو خوامخواہ درست نظر آ رہا ہو تو پھر ٹریننگ کا یہ عمل اتوار کے دن تک محدود کیا جائے کیونکہ اساتذہ ٹریننگ لینے کی اضافی معاوضہ لے رہے ہیں اور جو اساتذہ ٹریننگ لے رہے ہیں تو وہ بھی محکمہ تعلیم سے تنخواہ وصول کر رہے ہیں، اگر دونوں اطراف سے دونوں فریق حکومت سے مراعات لے رہے ہیں تو پھر خوامخواہ قوم کے بچے قربانی کے بکرے کیوں بنائے گئے ہیں! ورنہ اگر اتنی حد تک تعلیمی ایمرجنسی تھی تو وہ تو پایہ تکمیل تک پہنچ گئی ہے، آگے بچوں کا اللہ نگہبان!

Sardar Jamal
ڈاکٹر سردار جمال پیشے کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر ہیں لیکن ان کی نظر مریض کے ساتھ ساتھ سماج کے نبض پر بھی ہوتا ہے اور وہ اکثر ملکی اخبارات میں سیاسی و سماجی امراض کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button