سیاست

پاکستانی اور پاکستان میں جمہوریت کی 75 سالہ کہانی

رفاقت اللہ رزڑوال

پاکستان کو معرض وجود میں آئے 75 سال مکمل ہو چکے ہیں جہاں پر بظاہر جمہوری نظام حکومت چل رہا ہے لیکن دوسری جانب پاکستان کے تقریباً پندرہ فیصد لوگ اس وقت سیلاب کے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ان متاثرہ گھرانوں میں بیشتر افراد جمہوری حکومتوں سے نالاں نظر آتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ فوجی اہلکار ہی ان کی مدد کر سکتے ہیں جبکہ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے مسئلہ جمہوریت میں نہیں بلکہ جمہوری رویوں کے فقدان کا ہے۔

یہ ایسے حال میں جب دنیا بھر میں آج، 15 ستمبر کو، جمہوریت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے جس کا مقصد عوام میں جمہوریت کی اہمیت اور قدر کو اجاگر کرنا ہے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ کے رہائشی 75 سالہ گل ولی خان کا گھر اس وقت سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور ان سمیت ان کے جوان بچے محنت مزدوری کرنے کی بجائے اپنے گھر سے کیچڑ میں جکڑے سامان نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، گل ولی خان نے اپنی زندگی میں تین مارشل لاء حکومتیں اور سول حکومتیں بھی دیکھیں لیکن ان کا ماننا ہے کہ جمہوریت کی نسبت آمرانہ حکومتوں میں عوام خوش رہتے ہیں اور آج بھی وہ فوجی اہلکاروں کی امداد کے منتظر ہیں۔

گل ولی خان نے ٹی این این کو بتایا "مجھے ایسے جمہوری نظام کا کیا فائدہ جب میرا گھر پانی میں ڈوب گیا تو سب سے پہلے میری امداد کیلئے فوجی جوانوں کے دستے پہنچے، میرے بچے بھی نکال دیئے اور دو گھنٹے بعد خوراک بھی پہنچا دی، مجھے ایسے لوگ چاہئیں جو مشکل وقت میں میرے کام آئیں۔”

دوسری جانب نئے دور کے نوجوان سمجھتے ہیں کہ بہترین مارشل لاء سے بدترین جمہوریت بہتر ہے کیونکہ یہاں پر کسی نہ کسی طریقے سے بنیادی انسانی حقوق کا دفاع کا امکان موجود ہوتا ہے۔

ضلع چارسدہ کے 26 سالہ کاشف جان نے ٹی این این کو بتایا کہ وہ مشرف کے دور حکومت میں سیاسی سوچ بوجھ نہیں رکھتے تھے لیکن جتنا وہ تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس میں آمرانہ حکومتوں میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی دکھائی دے رہی ہے۔

کاشف جان کا کہنا ہے کہ وہ خود ایک سیاسی کارکن ہیں، جب انہیں حکومت کی کسی پالیسی پر تنقید کرنا ہوتی ہے تو وہ سڑکوں پر نکل کر حکومتوں کے خلاف نعریٰ بازی کرتے ہیں مگر انہیں آزادی ہے کیونکہ جمہوریت کی بدولت ان کے آئینی حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے، "یہ میرا تجربہ ہے کہ جب کسی مسئلے پر اجتماعی طور پر مشورہ کیا جائے تو اس کا نتیجہ اچھا نکلتا ہے اور کوئی فرد اپنا فیصلہ کرے تو اس کے نتائج خطرناک برآمد ہوتے ہیں بالکل اسی طرح جمہوریت کی مثال بھی ہے جہاں عوام کی اجتماعی سوچ کے مطابق حکمت عملی وضع کی جاتی ہے اور اگر کسی کو اختلاف ہو تو اسے تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اب بھی اس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔”

یہ دو مختلف جنریشن کے قصے نہیں بلکہ پاکستان کی پچھتر سالہ کہانی ہے جہاں پر بڑی عمر کے لوگ مارشل لاء کی تمنائیں کرتے ہیں لیکن نوجوان بھی زیادہ مطمئن دکھائی نہیں دیتے لیکن ان کا اصرار ہے کہ پارلیمانی نظام اور جمہوریت بہترین طرز حکومت ہے اور اس کے لئے انتخاب کے دوران سوچ سمجھ کر اہل لوگوں کو ووٹ دینا چاہئے۔

دنیا بھر میں حکومتوں کا جائزہ لینے والے ادارے اکنامک انٹلی جنس یونٹ کی 2021 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان 176 ممالک میں سے 104ویں نمبر پر ہے جبکہ رپورٹ میں اسے ہائبرڈ رجیم کہا گیا ہے۔

پاکستان میں سیاسی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں جمہوری نظام چلانے کیلئے عدلیہ، حکومت، سیاسی جماعتوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔

پشاور یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عامر رضا کا کہنا ہے کہ جمہوریت کا اصل مقصد انسانیت کو تسلیم کرنا ہے، ان کے مطابق جمہوریت کی پشت پر بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک نطام یا حکومت قانونی حیثیت رکھتی ہے تو اس کی بنیاد کیا ہے؟

اس سوال کے جوابات پہلے ہی سے دیئے گئے ہیں کہ کچھ ممالک میں خاندانوں کی حکومتیں رہی ہیں یا جب کسی کے پاس طاقت ہو تو وہ حکومت کرتا ہے کیونکہ جمہور ان کے پاس ہوتا ہے تو اس کی فلسفیانہ بنیاد کو انسان کی شخصیت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر عامر رضا نے ٹی این این کو بتایا کہ پاکستان میں کچھ لوگ فوجی آمروں کے حمایتی ہیں مگر اس کی شرح میں کمی دیکھنے میں آتی ہے کیونکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی سول حکومتوں کی بساط لپیٹنے کی سوچ نہیں سوچ سکتی لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سول اداروں میں مداخلت نہیں کرتی مگر ان کے سامنے ایک مزاحمت کھل کر دکھائی دے رہی ہے۔

انہوں نے فوجی آمروں کے حمایتی رویوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کچھ ادارے طاقت کے سرچشمے کے طور پر عوام کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے کچھ لوگ طاقتور اداروں کے ساتھ پیار کرنے لگ جاتے ہیں اور انہی اداروں سے توقعات رکھنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ جب بھی پاکستان میں فوجی حکومتیں قائم ہوئیں تو عوام کے انسانی بنیادی حقوق چھین لئے گئے۔

سیاسی تجزیہ کار و سینئر صحافی مظہر عباس نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں لولی لنگڑی جمہوریت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد آج تک ہم انگریزوں کے بنائے ہوئے قوانین تبدیل نہ کر سکے جو پاکستانی عوام کیلئے موزوں ہوں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تین فوجی آمروں نے طاقت کے زور پر حکومتیں کی ہیں جس کی ذمہ دار عدلیہ، فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتیں ہیں کیونکہ پاکستان میں جب بھی فوجی یا سویلین حکومت رہی ہو تو عوام کو فیصلہ سازی سے باہر رکھا گیا اور پھر اس سارے عمل کو عدلیہ نے تحفظ فراہم کیا ہے۔

مظہر عباس کہتے ہیں "میں عدلیہ کو اس لئے ذمہ دار سمجھتا ہوں کہ جب بھی پاکستان میں مارشل لاء قائم ہوا ہے تو اسی عدلیہ نے اسے تحفظ دیا ہے، اگر 5 جولائی 1977 یا 12 اکتوبر 1999 کو عدلیہ فوجی آمروں کو حکم دیتی کہ آپ الیکشن کرائیں تو وہ کیسے نہ مانتے لیکن عدلیہ نے آئین کے تحفظ کی بجائے مارشل لاء کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا۔”

سینئر صحافی مظہر عباس کے مطابق جمہوریت کو دوسرا خطرہ سیاسی جماعتوں میں اندرونی جمہوریت کے فقدان سے ہے، ملک کی تمام بڑی جماعتیں صرف ایک شخص یا خاندان کے گرد گھومتی ہیں اور یہ بھی ایک قسم کی ڈکٹیٹرشپ ہے جس کی وجہ سے ان پارٹیوں میں وہ جمہوریت پنپنے نہیں دی جاتی ہے جو ان کا اصل مقام ہے، دوسرا یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں رویے غیرجمہوری، سازشی رویے مطلب سیاسی جماعتوں کو جوڑنا توڑنا اور عدلیہ نے بھی آئین کو تحفظ فراہم نہیں کیا، اگر پانچ جولائی 77 کو مارشل لاء لگا تھا یا 12 اکتوبر 99 کو بھی نظریہ ضرورت کے تحت قانونی قرار دے دیا گی تھا اسی طرح ایوب خان کا مارشل لا کو بھی ختم کیا جا سکتا تھا اس لئے بنیادی ذمہ داری عدلیہ کی ہے۔

سینئر صحافی کی نظر میں تیسری ذمہ داری فوجی اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوتی ہے جہاں سے بظاہر تو نہیں لیکن خفیہ طور پر جمہوری نظام کے تسلسل کی اہمیت سے انکار موجود رہتا ہے تو ان سب رویوں کو جمہوریت کے حق میں خلوص نیت کے ساتھ استعمال کرنا ہو گا تب جا کر کئی عشروں بعد جمہوریت کے اصل ثمرات آنا شروع ہو جائیں گے۔

مظہر عباس نے برطانوی وزیراعظم سر ونسٹن چرچل کے قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ درحقیقت "جمہوریت بدترین نظام حکومت ہے لیکن ان نظاموں سے بہتر ہے جو اب تک آزمائے جا چکے ہیں۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button