لائف سٹائلکالم

گرگ آتشی

محمد سہیل مونس

ہر ذی روح شے اپنی خاص جبلت کے ساتھ دھرتی پہ اترتی ہے، بھیڑیا بھی ایک ایسا جانور ہے جو خاص قسم کی جبلت کا مالک ہے۔ جس میں اس کی خوداری، خاندان کے ساتھ جڑا رہنا اور ایک ساتھ خوراک کی تلاش و شکار کرنا شامل ہے۔ ان خصوصیات کے سبب انسان نے اسے نہایت باوقار و خوددار جانور قرار دیا ہے۔

بھیڑیا کسی کا شکار کیا ہوا نہیں کھاتا اور نہ کسی مرادر چیز پر جھپٹتا ہے، بھوک لگتی ہے تو خود سے شکار کے لئے نکلتا ہے جبکہ گوشت کے علاوہ سننے میں آیا ہے کہ دوسری کوئی چیز نہیں کھاتا لیکن بھیڑیئے کی ایک بری صفت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہی بھیڑیے کو کھا جاتا ہے۔

ملک ایران کے لوگ اس سلسلے میں بتاتے ہیں کہ جب ان کے ہاں سخت ترین قسم کی سردی پڑتی ہے تو گلہ بان گرم علاقوں کی جانب چلے جاتے ہیں دیگر جانور بھی گرم علاقوں کا رخ کر لیتے ہیں تو ان مشکل ترین حالات میں بھیڑیئے تازہ گوشت کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ اس حالت میں کئی دن گزر جاتے ہیں جب خوراک میسر نہیں ہوتی تو سارے بھیڑیئے ایک دائرہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس وقت تک دیکھتے رہتے ہیں جب تک ان میں سے کوئی کمزور یا لاچار بھیڑیا بھوک کی تاب نہ لا کر یا گر پڑتا ہے یا نیند اس پر غالب آ جاتی ہے تو باقی کے تمام بھیڑیئے اس پر جھپٹ پڑتے ہیں اور اسے چیر پھاڑ کر کھا جاتے ہیں۔ اس عمل کو فارسی زبان میں گرگ آتشی کہتے ہیں۔ جب تک کسی شکار کا بندوبست نہیں ہوتا یہی سلسلہ آنے والی بھوک تک جاری رہتا ہے۔

یہ قصہ سن کر اپنے معاشرے کی حالت سامنے آ کر کھڑی ہو گئی، یہ بلبلاتی ہوئی جنتا، رلتے ہوئے سفید پوش اور عزت بچاتی ہوئی وہ باوقار جنٹری جن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دور کروٹ لے گا اور نودولتیے عروج پا لیں گے۔ ان لوگوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ معاشرے کے بدمعاش جرگوں کے فیصلے کریں گے، نالائق اور بدخصلت لوگ بڑی بڑی مسندوں پر براجمان ہوں گے۔ معاشرے میں عورت ذات بچوں کا پیٹ پالنے واسطے اپنی عصمتیں تک قربان کر دیں گی اور ان کی تاک میں وہ بدعنوان اور بدکردار قسم کے معززین بیٹھے ہوں گے جن کا ظاہر کچھ اور جبکہ باطن کچھ اور ہو گا۔

ہم پرانی کہانیاں کیا دہرائیں اس سیلاب والی آفت ہی پر ذرا نگاہ ڈالیں تو سب کچھ عیاں ہو جائے گا جہاں ایک جانب عوام کی مدد کرنے والا ماسوائے چند فاؤنڈیشنز کے کوئی نہ تھا وہاں حکومت آرام فرما رہی تھی۔ وہ پانچ بھائی یا دوست کوئی نہیں بھولا ہو گا جو پانچ گھنٹے تک سیلابی ریلے میں پھنسے ہوئے تھے لیکن ان کو بچانے کے لئے نہ کوئی حکومتی اہلکاروں کی ٹیم آئی اور نہ فوج یا نیوی وغیرہ نے انھیں ریسکیو کیا۔

اسی کو گرگ آتشی کہتے ہیں کہ فریاد کرتے ہوئے لوگوں کو اس لئے نہ بچایا جائے تاکہ ڈیتھ ٹول بڑھے، زیادہ سے زیادہ آبادی پر پانی وار کرے اور اکثر ان میں غریبوں کی زمینیں تباہ ہو جائیں تاکہ بین الاقوامی ادارے اور ڈونر ایجنسیاں رحم کھا کر امدادیں بھیج دیں۔ ان امدادی رقوم اور دیگر اشیاء کا کیا بنتا ہے وہ سارے لوگوں کو معلوم ہے، یہی گرگ آتشی قیامت سے قیامت تک چلتی ہے جو ہم پاکستان کے کینوس پر اس صورت میں اور بین الاقوامی سطح پر طاقتور ممالک کی چھوٹے اور کمزور ممالک پر یلغار کی صورت میں ملاحظہ کرتے آ رہے ہیں۔

ہم نے نیٹو اور دیگر ممالک کو ایران، عراق، افغانستان، شام، لیبیا، مصر اور لاتعداد جگہوں پر اسی صورت میں کمزوروں کا شکار کرتے دیکھا۔ ہم نے کشمیر اور فلسطین کی دردناک حالت بھی عشروں سے ملاحظہ کی، کیا آج کے انسانی معاشرے اور بھیڑیوں کے زندگی گزارنے کے ڈھنگ میں کوئی فرق نظر آتا ہے؟ میرے خیال میں تو بالکل بھی نہیں۔ ہم اگر اپنے معاشرے پر غور کریں اور اپنے خونی رشتوں کا جائزہ لیں تویہ بات سامنے آتی ہے کہ سب کے سب اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ کوئی حد ہی نہیں۔

ہم اپنے عزیزوں میں سے کسی بھی عزیز سے آج کل یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ اچانک کسی ضرورت کے وقت میری مدد کے لئے حاضر ہو گا بلکہ خاندان کے کھاتے پیتے لوگ اپنے عزیز یا رشتہ دار کے کمزور ہو کر گرنے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ سڑک والی زمین جو بڑی چاہ سے اس نے سر چھپانے واسطے خریدی ہوتی ہے وہ اس سے اونے پونے داموں ہتھیا لے۔ اس کی غربت یا وقتی پریشانی کو مذاق بنا کر سب ان پہ ہنسے ان کی تضحیک کرے اور ان کو نیچا دکھانے کی حتیٰ الوسع کوشش کرے۔

اس طرح کی سوچ کے ساتھ انسانی معاشرے معاشرے نہیں رہتے جنگل بن جاتے ہیں اور جنگل میں کسی کو بھی نہیں معلوم کہ کون کس وقت شکار کرتا ہے اور کون کس وقت شکار بنتا ہے لہٰذا اگر اس خاکی پر زندگی گزارنی ہے تو ہمیں مکمل انسانی اقدار اور معاشرتی رویوں کے ساتھ آگے چلنا ہو گا۔ ہم نے اگر بھیڑیئے کی ایک بری خصلت اپنا کر اسی کے ساتھ جینا ہے تو یہ ذہن میں رہے کہ کسی وقت آپ بھی بھوک کو برداشت کرنے کی سکت کھو سکتے ہیں اور دوسروں کا شکار کرتے کرتے خود بھی شکار بن سکتے ہیں۔

 

monis
محمد مونس سہیل بنیادی طور پر ایک شاعر و ادیب ہیں، ڈرامہ و افسانہ نگاری کے علاوہ گزشتہ پچیس سال سے مختلف اخبارات میں سیاسی و سماجی مسائل پر کالم بھی لکھتے ہیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

نوٹ: کالم نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button