ڈیجیٹل مردم شماری کو بریک لگ گئی، مگر کیوں؟
محمد فہیم
آئین پاکستان کی رو سے ملک میں ہر دس سال کے بعد مردم شماری کرانا لازمی ہے۔ پاکستان کی پہلی مردم شماری 1951 میں کرائی گئی جس کے بعد دوسری مردم شماری 1961، تیسری مردم شماری 1972 جبکہ چوتھی مردم شماری 1981 میں کی گئی۔ اس کے بعد پانچویں مردم شماری کیلئے تقریباً 17 برس انتظار کرنا پڑا اور 1998 میں مردم شماری کرائی گئی جبکہ چھٹی مردم شماری نے اس سے بھی زیادہ وقت لیا اور 2017 میں چھٹی مردم شماری کرائی گئی تاہم اس مردم شماری پر قبائلی اضلاع یعنی سابق فاٹا، بلوچستان اور سندھ کے شہری علاقوں نے اعتراض اٹھا دیا۔
قبائل اور بلوچستان کی آواز توانا نہیں تھی تاہم ایم کیو ایم نے سندھ کے شہری علاقوں کیلئے آواز اٹھائی اور پاکستان تحریک انصاف کی 2018 میں بننے والی مخلوط حکومت میں مشروط شمولیت کر لی۔ ایم کیو ایم کے ہی مطالبہ پر وفاقی حکومت نے وقت سے قبل مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا اور اس بار ڈیجیٹل مردم شماری کرانے کی منصوبہ بندی شروع کی گئی تاہم ملک میں جاری غیریقینی صورتحال اور لمحہ بہ لمحہ بدلتی سیاست نے ملک میں ڈیجیٹل مردم شماری کو بریک لگا دی۔ اگست میں مکمل ہونے والی مردم شماری کیلئے اب تک پائلٹ سروے بھی مکمل نہ کیا جا سکا جس کے باعث ادارہ شماریات کو اب مزید 3 سے 4 ماہ کا عرصہ درکار ہے۔
اب تک مردم شماری پر ہونے والی پیش رفت
وفاقی حکومت نے متحدہ قومی موومنٹ اور خیبر پختونخوا حکومت کے اعتراضات کے بعد ملک میں وقت سے قبل مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔ آئین کی رو سے 10 سال بعد مردم شماری کرانا لازمی ہے تاہم 2017 کی مردم شماری پر اعتراضات کے باعث اگلی مردم شماری کرانے کی منظوری اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ نے دے دی تھی جس کے بعد ادارہ شماریات نے بھی کام شروع کر دیا تھا، اس ضمن میں ڈیجیٹل طریقے سے مردم شماری کی جانی ہے اور ملک بھر میں ایک لاکھ ٹیمیں موبائل ٹیبلٹ کے ذریعے مردم شماری کریں گی تاہم ملک میں بدلتی صورتحال کے باعث ادارہ شماریات کا کام سست روی کا شکار ہو گیا۔
جنوری سے شروع ہونے والے مردم شماری کے عمل کو اگست تک مکمل کرنے کا ہدف دیا گیا تھا تاہم ماہ اگست میں اب تک پائلٹ مردم شماری بھی مکمل نہیں ہو سکی ہے اور امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ جلد ہی پائلٹ سروے مکمل کر لیا جائے گا جس کے بعد عملہ کی تربیت اور ٹیبلٹ کی خریداری شروع کی جائے گی۔ ایک اندازے کے مطابق ڈیجیٹل مردم شماری پر 40 ارب روپے سے زائد خرچ کئے جائیں گے۔
پائلٹ سٹڈی کے بعد پورے ملک کی مردم شماری کب شروع ہو گی؟
پائلٹ سٹڈی مکمل ہونے کے بعد اس کی جانچ اور اس میں سامنے آنے والی خامیوں کو دور کرنے کیلئے ادارہ شماریات کو مزید وقت درکار ہو گا اور جلد اس کے آغاز کے امکان کو رد کر دیا گیا ہے۔ مختلف وجوہات کی وجہ سے ڈیجیٹل مردم شماری رواں مہینے شروع کرنے کی بجائے چار ماہ بعد کرانے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے، افرادی قوت محکمہ تعلیم سے ہی حاصل کی جائے گی اور اس تاخیر کے حوالے سے محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے، مردم شماری کیلئے تمام سہولیات کی فراہمی کے بعد آغاز کیا جائے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ حکومت نے ڈیجیٹل مردم شماری کرانے کیلئے اگست میں شیڈول جاری کر دیا تھا جس کے تحت ٹیچرز کو مردم شماری کیلئے ٹیبلٹس وغیرہ بھی فراہم کرنے کی منصوبہ بندی تھی لیکن معلوم ہوا ہے کہ بعض وجوہات کی وجہ سے ڈیجیٹل مردم شماری کا شیڈول چار ماہ تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اب اس مردم شماری کیلئے دسمبر میں شیڈول مرتب کرنے کا امکان ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ بعض مالی مسائل کے نتیجے میں ٹیبلٹس وغیرہ کی ترسیل کا سلسلہ مکمل نہیں کیا گیا ہے اس وجہ سے بھی مردم شماری میں تاخیر کا فیصلہ کیا گیا ہے حکومت کی طرف سے اعلان کے بعد اس حوالہ سے نیا شیڈول جاری کیا جائے گا اور اس کے بعد پرائمری سکول ٹیچرز کی ڈیوٹی لگائی جائے گی۔
ڈیجیٹل مردم شماری اور حلقہ بندیاں
الیکشن کمیشن نے 2017 کی مردم شماری کی بنیاد پر اپنی حلقہ بندیاں مکمل کر لی ہیں اور انہوں نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ وہ انتخابات کیلئے تیار ہیں تاہم معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، اگر ادارہ شماریات نے ڈیجیٹل مردم شماری مکمل کرلی تو الیکشن کمیشن کو دوبارہ سے حلقہ بندیوں کا عمل مکمل کرنا پڑے گا۔
ادارہ شماریات ذرائع کے مطابق دسمبر میں شروع ہونے والی مردم شماری 45 سے 60 روز کا وقت لے گی جس کے بعد اس ڈیٹا کو جانچ کے عمل سے گزارنے اور اعتراضات ختم کرنے کیلئے ڈیڑھ سے دو ماہ درکار ہوں گے یعنی مارچ تک وہ یہ ڈیٹا الیکشن کمیشن کے سپرد کر دیں گے جس کے بعد موجودہ حلقہ بندیاں کالعدم ہو جائیں گی اور الیکشن کمیشن اس کی بنیاد پر حلقہ بندیاں شروع کرے گا۔
الیکشن کمیشن نئے ڈیٹا پر انتخابات کرانے کا پابند ہے اور اس ضمن میں الیکشن کمیشن کو دوبارہ سے حلقہ بندیاں کرنی ہوں گی جس کیلئے الیکشن کمیشن کو 3 سے 6 ماہ کا وقت درکار ہے۔ ڈیجیٹل مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کرانے سے عام انتخابات کیلئے ایک سال سے 14 ماہ تک کا انتظار کرنا پڑے گا اور ادارے ستمبر میں انتخابات کرانے کیلئے تیار ہوں گے۔