"ٹی ٹی پی نے سوات سے افغانستان جانے کی تیاری پکڑ لی”
مسلح افراد کو علاقہ چھوڑنے کیلئے 72 گھنٹے کا وقت، یہ مہلت پیر کی رات تک مکمل ہو جائے گی
رفاقت اللہ رزڑوال
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ضلع سوات کے علاقہ مٹہ سے تحریک طالبان نے ضلع دیر کے راستے افغانستان کو واپسی کا عمل شروع کر دیا جس کی وجہ سے ممکنہ آپریشن ملتوی کر دیا گیا ہے۔
ہفتہ کے روز صوبائی حکومت کے ترجمان نے کہا تھا کہ سوات میں مسلح افراد کے خلاف آپریشن کی تیاریاں مکمل کی گئی ہیں جہاں پر مسلح افراد کو علاقہ چھوڑنے کیلئے 72 گھنٹے کا وقت دیا گیا ہے اور یہ مہلت پیر کی رات تک مکمل ہو جائے گی۔
پشاور میں مقیم سینئر صحافی اور ملکی سیکورٹی پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار مشتاق یوسفزئی نے اپنی ایک ٹویٹ میں ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نے سوات کے پہاڑی علاقوں پر اپنا قبضہ ختم کر کے واپس افغانستان جانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔
مشتاق یوسفزئی نے لکھا ہے کہ واپس جانے کیلئے ٹی ٹی پی کے مسلح افراد ضلع دیر کا راستہ اختیار کر کے واپس چلے گئے ہیں جس کی وجہ سے سوات میں سیکورٹی فورسز کا ممکنہ آپریشن ملتوی کر دیا گیا ہے۔
باخبر زرائع کیمطابق پاکستانی طالبان نے سوات کے پہاڑی علاقوں پراپنا قبضہ ختم کرکے وہاں سے واپسی شوروع کردی۔ طالبان اس وقت دیر کے راستے افغانستان واپس جارہے ہیں۔ سوات میں ممکنہ فوجی آپریشن بھی ملتوی کیاگیاہے۔
— Mushtaq Yusufzai (@MYusufzai) August 13, 2022
دوسری جانب پاک افغان امور کے تجزیہ کار طاہر خان کا خیال ہے کہ سوات سے طالبان نے انخلاء شروع کیا ہے جس کی وجہ عوامی سطح پر سخت ردعمل کا اظہار تھا جس کی مثال ضلع دیر کے میدان اور سوات میں دیکھی گئی۔
انہوں نے کہا کہ فوج کے دیئے گئے بیان کے مطابق ٹی ٹی پی کے کچھ مسلح افراد کی موجودگی ضرور تھی لیکن مسئلہ وہاں پر پیدا ہوا جب طالبان نے یرغمال کئے گئے سرکاری افسران کی ویڈیو جاری کر دی جس پر نہ صرف عوام بلکہ سیکورٹی اداروں نے بھی سخت ردعمل دیا۔
طاہر خان کا کہنا ہے ”طالبان سوات میں واپسی کو ایک ٹیسٹنگ کیس کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے کہ عوام کا ردعمل اور ماحول کا جائزہ لیں لیکن اس بار ٹی ٹی پی کیلئے سوات میں رہنا مشکل ہو گا کیونکہ پہلے کی نسبت فوج اور دیگر سیکورٹی اداروں کی موجودگی ہے جبکہ دوسری طرف عوام کے فطری ردعمل سے بھی یہ تجربہ ناکام ہوا۔”
انہوں نے کہا کہ اپنے قیام کے ایک سال بعد 2008 میں جب ٹی ٹی پی باجوڑ میں بڑی مضبوط طاقت بن کر ابھری تو کچھ افراد نے سوات کے پہاڑوں کا رُخ کر لیا جہاں پر انہوں نے پولیس، خوانین اور جرائم پیشہ افراد پر تشدد شروع کیا جس کی وجہ سے عوام میں پذیرائی ہوئی لیکن جب عوام پر تشدد شروع ہوا تو عوام کی حمایت کم ہونے لگی۔
سینئر صحافی کہتے ہیں کہ اس بار بھی طالبان نے 8 اگست کو جاری کردہ ویڈیو میں وہی غلطی دہرائی جس پر عوام نے عملی طور پر اور سوشل میڈیا پر سخت ردعمل دیا جس کی وجہ سے صوبائی حکومت نے ممکنہ آپریشن کیلئے کمر کس لی۔
دوسری جانب پاک فوج کے ترجمان ادارے انٹر سروسز پبلک ریلیشن (آئی ایس پی آر) نے سوات میں طالبان کی موجودگی کی خبروں کو گمراہ کن قرار دیا ہے۔ آئی ایس آر کے مطابق سوات اور دیر کے درمیان پہاڑوں پر چند مسلح افراد کی موجودگی ظاہر ہوئی ہے جو اپنے آبائی علاقوں میں دوبارہ آباد ہونے کیلئے افغانستان سے چوری چھپے آئے ہیں۔
آئی ایس پی آر نے ہفتہ کو جاری کردہ بیان میں مزید کہا کہ پہاڑوں پر موجود مسلح افراد پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملحقہ علاقوں کے لوگوں کے تحفظ کیلئے ضروری اقدامات اُٹھائے ہیں۔
پشاور میں مقیم سینئر صحافی اور پاک افغان معاملات پر ‘وار زون’ نامی کتاب کے مصنف عقیل یوسفزئی نے سوات سے طالبان کے انخلاء کی خبروں کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ سوات میں طالبان کی موجودگی تھی لیکن ظاہر ہونے پر حکومت نے انہیں علاقہ چھوڑنے کا حکم دیا ہے جس کے بعد عسکریت پسندوں نے ضلع سوات سے براستہ دیر افغانستان جانا شروع کر دیا ہے۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے سوات میں طالبان کی عدم موجودگی کی خبر کو نامناسب قرار دیتے ہوئے عقیل یوسفزئی نے کہا کہ مسلح افراد کی جانب سے جاری کردہ ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سرکاری افسران یرغمال ہیں، طالبان موجود ہیں لیکن ان کی تعداد نہایت کم ہے۔
عقیل یوسفزئی کہتے ہیں "آئی ایس پی آر کا بیان رات کو جاری ہوا ہے جبکہ اس کے کچھ دیر بعد بھی سابق وفاقی وزیر مراد سعید نے اپنے علاقے میں طالبان کی موجودگی کا اقرار کیا، اسی طرح سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی یہ دعوی یا الزام عائد کیا ہے کہ ان کے ارکان کو طالبان کے ذریعے ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔”
ادھر خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ ضلع سوات اور دیگر علاقے اس وقت حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور قانون کو ہاتھ میں لینے والے افراد کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔
بیرسٹر سیف نے ہفتے کو ٹی این این کے ساتھ ٹیلفونک گفتگو میں سوات میں مسلح افراد کی موجودگی کا انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں پر قانون نافذ کرنے والے ادارے موجود ہیں اور حالات خراب کرنے والے افراد کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔
بیرسٹر سیف سے جب پوچھا گیا کہ ضلع سوات میں طالبان کیسے آئے؟ تو انہوں نے بتایا کہ طالبان کی اعلیٰ قیادت نے اپنے علاقے چھوڑ کر افغانستان میں رہائش اختیار کی جبکہ ان کے حمایتی سوات میں باقی رہے ہیں لیکن وہ خاموش تھے اور کچھ لوگ باہر سے آ کر ان کے ساتھ مل گئے ہیں۔
بیرسٹر سیف نے کہا "یہ مسئلہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے، پولیس اور سیکورٹی اداروں کے ساتھ قابو پانے کی صلاحیت موجود ہے، حالات قابو میں ہیں اور سیاح بھی بغیر کسی جھجھک اور خوف کے سوات کی سیاحت سے حظ اُٹھا سکتے ہیں۔”