بلاگزلائف سٹائل

اردو نہیں آتی!

نازیہ سلارزئی

 کیا آپ نے کبھی کسی انگریز کو یہ کہتے سنا ہے کہ وہ اچھی انگریزی نہیں بول سکتا یا سکتی؟ کبھی کسی جرمن کو اپنی زبان پر شرمندہ ہوتے دیکھا ہے؟

مگر قومی زبان اردو کے بارے میں ایسا بارہا سننے کو ملا ہو گا کہ ارے اتنی مشکل اردو، مجھے تو اردو میں لکھنا نہیں آتا یا میری اردو اتنی اچھی نہیں ہے۔ جب بھی یہ سنتی ہوں تو انور مسعود صاحب یاد آتے ہیں جن کا کہنا تھا کہ:

ہر شخص کو زبانِ فرنگی کے باٹ سے
جو شخص تولتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
افسر کو آج تک یہ خبر ہی نہیں ہوئی
اُردو جو بولتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

اردو سے بیزاری

کچھ ہفتے پہلے ایک دوست کے گھر ملنے گئی تو وہاں اس کی بھتیجی اردو کی ایک نصابی کتاب پڑھ رہی تھی، اسے ناک بھوں چڑھاتے دیکھا تو پوچھ لیا۔ کہا کہ اردو کا یہ مضمون تو مجھ سے یاد ہی نہیں ہو رہا انگریزی زبان پڑھنے میں تو کبھی مسئلہ نہیں ہوتا، پتا نہیں کیوں اسے یاد کرنے میں گھنٹوں گزر جاتے ہیں۔ انگریزی کافی آسان ہے کیونکہ نرسری سے پڑھ رہی ہوں۔

اپنی ہی زبان سے ایسی بیزاری کی مثال مجھے کہیں اور تو نہیں ملی۔ آپ کے علم میں ہو تو ضرور بتائیے گا۔

میں نے کبھی بھی چین، جاپان، ترکی، جرمنی یا سعودی عرب کے سربراہان مملکت کو انگریزی زبان بولتے نہ سنا نہ دیکھا۔ کیا آپ نے دیکھا؟

وہ بولتے صرف اپنی زبان میں ہیں جبکہ اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لئے مترجم کا سہارا لیتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارا کوئی سیاستدان، وزیر یا ٹی وی اداکار انگریزی صحیح نہ بولے تو ہم اس کا مذاق اُڑانے لگتے ہیں۔

مثلاً قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے جب ورلڈ کپ میں بیٹنگ کے تابڑ توڑ ریکارڈ بنائے تو دنیا بھر کی نظریں ان پر تھیں۔ ایسے میں انہیں بین الاقوامی فورمز پر صرف اردو زبان بولتے سنا تو خوشی ہوئی۔ مگر ٹوئٹر پر ان کی اس بات کا خوب بتنگڑ بنایا گیا کہ وہ انگریزی نہیں بول سکتے اس لئے اردو میں بولنا پڑ رہا ہے۔

ہم بڑے فخر سے محفلوں میں کہتے نظر آتے ہیں کہ میری اردو بہت کمزور ہے۔ اسی ملک میں پیدا ہونے، پلنے بڑنے اور تعلیمی اداروں سے اسی زبان میں تعلیم پانے والے گھروں میں اردو یا دوسری مادری زبان بولنے والے یہ کہتے ہوئے ذرا سی ہچکچاہٹ بھی محسوس نہیں کرتے ہیں۔

انگریزی کا بول بالا

ہم اردو میں بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ان کی یہ خامی نظر انداز کی جائے۔ زبان پر معذرت ہوتی ہے مگر دل میں غرور ہوتا ہے۔ قومی زبان صحیح سے آتی نہیں لیکن حب الوطنی کا دعوی کرتے ہیں۔ عدالتوں میں انگریزی بولی جاتی ہے۔ قانون سارا انگریزی میں لکھا ہے۔ ڈاکٹری نسخے انگریزی زبان میں ہوتے ہیں، ٹیسٹ انگریزی میں ہوتے ہیں، بینکوں میں بھی انگریزی کا بول بالا ہوتا ہے، تو کم لکھا پڑھا یا ان پڑھ انسان کیسے اس کو سمجھ سکے گا۔

اور تو اور حکومت سے کیا گلہ کیا جائے کیونکہ ان کے گھروں میں بھی انگریزی زبان ہی بولی جاتی ہے۔ اور زیادہ تر سیاستدانوں کے بچے تو بیرون ملک میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ اور جب ملک واپس لوٹتے ہیں تو ٹوٹی پھوٹی اردو بولتے ہیں اور اسی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

 سکول بنیادی تربیت گاہ

سکول وہ بنیادی درسگاہ ہے جہاں سے سیکھنے کے عمل کی ابتدا ہوتی ہے۔ والدین اردو میڈیم کے بجائے انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ اردو میڈیم اسکولوں کا غیرمعیاری تعلیمی نظام ہے۔ ان اسکولوں کا نصاب تیار کرتے وقت معیار کا خیال نہیں رکھا جاتا جس کی وجہ سے بچے نہ تو اردو صحیح بول پاتے ہیں نہ ہی انگریزی یعنی آدھا تیتر اور آدھا بٹیر۔

میں اگر اپنی بات کروں تو مجھے بھی انگریزی زبان لکھننا اور پڑھنا آسان لگتا ہے کیونکہ بچپن سے ہی انگریزی میڈیم سکولوں میں پڑھا۔ تو بنیاد میں انگریزی کا تڑکا لگا نا کہ اردو کا۔

غلطی شاگردوں کی نہیں ہوتی ہے۔ شاگردوں نے تو وہی سیکھنا ہوتا ہے جو ان کو پڑھایا جاتا ہے۔ معیاری اردو نصاب وقت کی ضرورت ہے۔ یہ ذمہ داری استاد ہی کی ہے کہ وہ شاگردوں کو اردو کی طرف مائل کریں۔

 والدین کا قصور

قومی زبان سے دوری میں نئی نسل سے زیادہ گھر کے بڑے قصوروار ہیں جنہوں نے بچوں کو ابتدا سے ہی انگریزی سکھانے پر توجہ دی اور اُردو کو یکسر نظرانداز کر دیا۔

جہاں بھی جاتی ہوں، جس سے بھی ملتی ہوں تو ماں باپ یہی بات کرتے ہیں کہ میرے بچے کے ساتھ ذرا بات تو کرو انگریزی بولنے میں کتنا ماہر ہے۔

آتے جاتے مہمانوں کے سامنے بچوں کو انگریزی میں تلقین و سرزنش کی جاتی ہے تاکہ ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا پتہ چلے لوگوں کو۔

میں تو کہتی ہوں کہ اردو ہمارے نصاب کا حصہ تو ہے مگر نظروں سے پوشیدہ بھی ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں انگریزوں کا راج

انگریز تو یہاں کے وسائل پر قبضہ کرنے اور غصب کرنے آیا تھا۔ لیکن جب اْس نے دیکھا کہ برصغیر کے حکمران تو بس تخت و تاج کی خاطر اپنے ہی بہن بھائیووں کے دشمن ہیں تو انگریز نے تجارت کے ساتھ یہاں حکومت کرنے کا منصوبہ بھی بنا لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انگریز برصغیر کا حکمران بنا اور اپنی زبان کو اتنا اونچا درجہ دے دیا کہ لوگ ہندی و اردو زبان بولنے میں شرمندگی محسوس کرتے۔ یوں پھر تعلیمی نظام جو برصغیر میں صدیوں کی محنت کے بعد ترتیب پایا تھا اس پر انگریزی زبان غالب آ گئی۔

اردو زبان کو اگر ہم نے آگے بڑھانا ہے تو سب سے پہلے ہمیں اسے دل سے اپنانا ہو گا۔ اس پر شرمندگی کے بجائے فخر کرنا ہو گا۔ اسے مکمل ترجیح دینی ہو گی۔ ہم نے جو اپنی زبان کو انگریزی سے کم تر سمجھنے کا رویہ اپنا لیا ہے، اس سوچ کو بدلنا ہو گا۔

اردو کو پروان چڑھانے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ خود کو انگریزی یا دیگر زبانوں سے دور کر لیا جائے۔ جتنی چاہے زبانیں سیکھیں، سمجھیں، بولیں اور پڑھیں لیکن ساتھ ساتھ اردو کو بھی یاد رکھیں۔ اسے وہ درجہ وہ مقام دیجیے جو اس کا حق ہے۔ اردو بورڈ کی ذمہ داری ہے کہ ہر زبان میں تخلیق کیا گیا جدید اور بہترین ادب، نئی تحقیقات، نئے رجحانات اپنی زبان کے سانچے میں ڈھالیں تاکہ نئی نسل کو تمام تر معلومات اور علم اپنی زبان میں میسر آ سکے۔

آپ اردو کی ترقی اور ترویج چاہتے ہیں؟ آپ اس کے لئے کیا کردار ادا کریں گے؟

نازیہ سالارزئی اکنامکس گریجویٹ اور بلاگر ہیں۔ 

ٹویٹر: NaziaSalarzai@

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button