سیاست

عدلیہ جانبدار یا غیرجانبدار: 1997 سے 2022 تک

ملک علی نواز

1997 پاکستان میں ایک سے زیادہ وجوہات کی بنا پر یادگار سال رہا۔ فروری میں نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں بے مثال دو تہائی اکثریت حاصل کی۔ اس وقت ظاہر ہوا کہ نواز شریف کچھ حد تک مضبوط اور بے خوف رہیں گے۔ انہوں نے اپنے پسندیدہ منصوبے شروع کرنے میں کوئی وقت نہیں گنوایا، جیسے کہ بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے میں، جس میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم عندر کمار گجرال نے بہت مدد کی، انتہائی کاروباری دوستانہ پالیسیاں تیار کیں، بے نظیر کی پیپلز پارٹی کو دبانے اور قانونی تبدیلیوں کے ذریعے اقتدار کو مستحکم کرنے میں کوئی کسر نا چھوڑی۔

کچھ عرصہ بھد حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان ججوں کی تعداد میں کمی سمیت کئی معاملات پر اختلافات شروع ہو گئے۔ سپریم کورٹ کے چند ججوں نے حکومت کا ساتھ دیا جبکہ کچھ نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی حمایت کی، جو ایک سندھی تھے، جنہوں نے عدالتی احکامات کی تعمیل میں ناکامی پر نواز شریف کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا۔ وزیراعظم پیش ہوئے اور دو دن بعد توہین عدالت کی بنیاد پر چارج شیٹ جاری کر دی گئی۔ اس کی نااہلی قریب آ رہی تھی۔ ایک ہفتے بعد، وزیر اعظم کے حامیوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا اور جج اپنی جان بچانے کے لیے عملی طور پر اپنی نشستوں سے بھاگ گئے۔ ایک سنگین بحران پیدا ہوا جس کی وجہ سے آرمی چیف تمام متعلقہ افراد کے ساتھ بیٹھ گئے اور صدر لغاری کے استعفیٰ پر اتفاق ہوا، جنہوں نے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے کے باوجود 1996 میں کرپشن کی بنیاد پر اپنی حکومت کو برطرف کر دیا تھا، اور چیف جسٹس کی جگہ کسی اور جج کو تعینات کیا گیا تھا۔ نواز شریف اس دور میں غالب آنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن دو سال بعد جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر خود نظام سنبھال لیا۔

اس کے بعد جنرل پرویز مشرف کی آمریت کا دور شروع ہوا جو 1999 سے 2008 تک جاری رہا۔ اسی دوران بے نظیر بھٹو پر ستائیس دسمبر 2007 کو قاتلانہ حملہ ہوا جس کے نتیجے میں وہ شہید ہو گئیں اور پرویز مشرف نے عام انتخابات کرانے کا اعلان کر کے استعفیٰ دے دیا، 2008 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے واضح برتری حاصل کی اور یوسف رضا گیلانی ملک کے نئے وزیراعظم جب کہ آصف علی زرداری صدر منتخب ہوئے۔

25 اپریل 2012 کو پاکستان کی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی سے متعلق سپیکر کی رولنگ کے حوالے سے دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن ان کی نااہلی کا نوٹیفیکیشن جاری کرے۔

اس معاملے کا آغاز سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو این آر او مقدمے میں عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے پر توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کیے جانے سے ہوا تھا۔ بعد ازاں انہیں اس جرم کا مرتکب قرار دے کر عدالت کی برخاستگی تک کی سزا سنائی گئی تھی تاہم سپیکر قومی اسمبلی نے وزیراعظم کو اس سزا کی بنیاد پر نااہل قرار دینے سے انکار کر دیا تھا۔ افتخار چوہدری اس وقت پاکستان کے چیف جسٹس ہونے کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ حکومت کے خلاف فیصلہ آنے پر حزب اختلاف کی جانب سے عدلیہ کی غیرجانبداری پر تعریفوں کے پُل باندھے گئے جبکہ پیپلز پارٹی کی طرف سنگین الزامات لگائے گئے۔ یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد راجہ پرویز اشرف نئے وزیر اعظم بنے جن کا دور 2013 تک رہا۔

2013 کے عام انتخابات کے نتیجے میں نوازشریف تیسری دفعہ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور پیپلز پارٹی اور عمران خان کی تحریک انصاف نے حزب اختلاف میں بیٹھنے کو تجیح دی۔ یہ وہ پہلے عام انتخابات تھے جس میں تحریک انصاف نے پرزور شرکت کی اور اسمبلی میں کُل 32 نشستیں حاصل کیں۔ انتخابات کے بعد عمران خان نے نواز شریف پر سنگین دھاندلی کے الزامات لگائے جس کا سلسسلہ وقتاً فوقتاً چلتا رہا اور عمران خان کے 126 دن کا طویل دھرنا بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

اپریل 2016 میں دنیا کا سب سے بڑا منی لانڈرنگ اسکینڈل سامنے آیا جسے ہم "پانامہ لیکس ” کے نام سے جانتے ہیں جس میں دنیا کے سینکڑوں نامور شخصیات سمیت کئی پاکستانیوں کے نام سامنے آئے۔ پانامہ لیکس کے آنے کے بعد عمران خان نے ایک بار پھر اس مطالبے کے ساتھ احتجاج شروع کیا کہ نوازشریف پر مقدمہ چلا کر اثاثوں کی تفصیل سامنے لائی جائے۔ اس احتجاج کے مدنظر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کے نتیجے میں ایک جے آئی ٹی قائم کی اور بعد میں فل کورٹ نے اپریل 2017 میں نوازشریف کو تین دو کے تناسب سے تاحیات نااہلی کی سزا سنائی۔ نواز شریف کی سزا کو لے کر حزب اختلاف کی نشستوں میں سپریم کورٹ کی واہ واہ کی گئی جبکہ حکومت کی جانب سے عدلیہ مخالف خوب تحریک چلائی گئی۔ نوازشریف کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی 2018 تک وزیر اعظم رہے۔

25 جولائی 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف نے سب زیادہ 155 نشستیں حاصل کیں، اتحادیوں کی مدد سے حکومت قائم کی اور عمران خان وزیراعظم منتخب ہوئے۔ انتخابات میں ناکامی کے باعٹ حزب اختلاف نے سنگین فوجی دباؤ اور تاریخی دھاندلی کے الزامات لگائے۔ 2022 میں اتحادیوں نے بھی مہنگائی کو بنیاد بنا کر عمران حکومت کا ساتھ چھوڑ دیا اور عمران خان پر عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تیاریاں شروع کیں۔ اسی دوران عمران خان نے اپوزیشن پر بیرونی سازش کے تحت حکومت کے خاتمے جیسے سنگین الزامات لگائے۔ عدم اعتماد کو اُس وقت کی قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اس تحریک کے پیچھے امریکی سازش ہے اور حزب اختلاف بھی اس سازش کا ساتھ دے رہی ہے۔

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے چند گھنٹے بعد چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے چار دن کے اندر ڈپٹی اسپیکر کو آئین کے خلاف قرار دیا اور عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کا حکم دیا جس کے نتیجے میں عمران خان پر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی اور 10 اپریل 2022 کو عمران حکومت کا خاتمہ ہوا۔ تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عمران خان نے عدلیہ اور ریاستی اداروں پر بیرونی سازش میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات لگائے جس کا سلسلہ ابھی تک چلا آ رہا ہے جبکہ پی ڈی ایم کی جانب سے مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔

تحریک انصاف کے پنجاب اسمبلی میں منحرف اراکین کے ڈی سیٹ ہونے کے نتیجے میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کو اکثریت واپس مل چکی ہے اور عدالت نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے دوبارہ انتخاب کا حکم دیا۔ عدالتی حکم کی روشنی میں 22 اپریل 2022 کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا تاکہ وزیراعلیٰ کا انتخاب ہو سکے۔ وزیراعلیٰ کی نشست کے لیے پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز کے درمیان مقابلہ ہے۔ عین گنتی کے بعد پنجاب کے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے یہ کہہ کر (ق) لیگ کے دس ووٹ مسترد کر دیے کہ مجھے شجاعت حسین کی جانب سے خط موصول ہوا ہے، جس میں لکھا ہے کہ میں نے اپنے دس ایم پی ایز کو کہا ہے کہ حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ ڈالیں حالانکہ اُن دس ارکان میں پرویز الٰہی بھی شامل تھے جو کہ وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں۔ (ق) لیگ کے دس ووٹ مسترد کرنے کے بعد حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب برقرار رکھنے کی رولنگ دی۔

ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے بعد مسلم لیگ قائد اعظم اور تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے درخواست منظور کرتے ہوئے تین رکنی بینچ کو مقدمے کی سماعت کے لیے مقرر کر دیا۔

اس کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے عدالتی کارروائی کو سراہا جا رہا ہے بلکہ دوسری جانب موجودہ حکومت نے معاملے پر عدالت سے فل پینچ بنانے کی استدعا کی جو کہ پانچ ججوں پر مشتمل ہوتا ہے، لیکن عدالت استدعا منظور نہیں کی جس کے پیش نظر پی ڈی ایم قیادت کی جانب سے ججوں اور اداروں پر جانبداری کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، حالانکہ یہ وہی بنچ ہے جس نے قاسم سوری کی رولنگ کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button