سیاست

پاکستانی علماء کا وفد افغانستان اعتماد کی بحالی کیلئے گیا ہے۔ تجزیہ کار

رفاقت اللہ رزڑوال

پاکستانی علماء کا وفد مفتی تقی عثمانی کی قیادت میں تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کیلئے آج افغانستان پہنچ گیا ہے، مفتی تقی عثمانی نے کہا ہے کہ یہ وفد افغان حکومت کی دعوت پر افغانستان پہنچا ہے جبکہ پاک افغان امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ علماء کا وفد ٹی ٹی پی کے سخت مطالبات میں نرمی لانے کیلئے بھجوایا گیا ہے۔

دارالعلوم کراچی کے نائب مہتمم مفتی تقی عثمانی نے مختلف مکتبہ فکر کے آٹھ علماء پر مشتمل وفد کے افغانستان پہچنے کے بعد ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ افغان حکومت کی دعوت پر ایک خیرسگالی وفد کے ساتھ کابل پہنچے۔ مفتی تقی نے کہا کہ وہ کابل میں امارات اسلامی کے وزیراعظم، وزیرداخلہ، وزیرتعلیم اور دیگر حکام سے امدادی کاموں، تعلیم اور اسلامی اقتصاد پر گفتگو کریں گے مگر امارات اسلامی کے زیرانتظام نیوز ایجنسی ‘باختر نیوز’ نے کہا ہے کہ پاکستانی وفد تحریک طالبان پاکستان کی قائدین سے بات چیت کرے گا۔

پاکستان کے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مفتی تقی عثمانی کا کابل پہنچنے کے بعد ان کے ساتھ ٹیلیفونک رابطہ ہوا جس میں انہوں نے افغان حکومت کو طلبہ و طالبات کیلئے آن لائن اور ورچوول نظام تعلیم کی سہولیات کی فراہمی کی پیشکش کی ہے۔

بیان میں صدر پاکستان نے کہا کہ افغانستان میں ملک گیر انٹرنیٹ کی سہولیات موجود نہیں تو ابتدائی طور پر اس سلسلے میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ذریعے ٹیلی ویژن پر تعلیمی مواد پہنچائی جا سکتا ہے۔

صدر پاکستان عاف علوی کا کہنا تھا کہ قرآن میں ‘اقراء’ کا حکم سب کیلئے، کسی مخصوص جنس کیلئے مختص نہیں لہذا حکومت اور ریاست پاکستان خواتین اور مردوں کے لئے برابر تعلیمی مواقع پر یقین رکھتی ہے۔

اگرچہ صدر پاکستان اور مفتی تقی عثمانی افغانستان میں تعلیم کی بہتری کو وفد کے دورے کا مقصد قرار دینے پر اصرار کرتے ہیں مگر پاک افغان امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ دراصل وفد پاکستانی حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کے دوران ڈیڈلاک کو کم کرنے کیلئے کردار ادا کرنے گیا ہے۔

پشاور سے سینئر صحافی و پاک افغان امور کے ماہر رفعت اللہ اورکزئی کا کہنا تھا کہ افغانستان کو پاکستانی علماء کا وفد بھیجنا دراصل ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کیلئے اعتماد بحال کرنے کی کوشش ہے، "اس پہلے جون میں بھی قبائلی اضلاع کی مشران کا وفد ٹی ٹی پی سے مذاکرات کیلئے گیا تھا اور اس میں طالبان نے کچھ سخت مطالبات رکھے تھے جو حکومت کیلئے ماننا مشکل تھے تو ان مطالبات میں نرمی لانے کیلئے علماء کا وفد بھیجا گیا ہے۔”

اورکزئی نے ٹی ٹی این کو بتایا کہ سال 2018 میں تقریباً 18000 علماء نے متفقہ طور پر پیغام پاکستان کے نام سے ایک فتویٰ جاری کیا تھا جس میں انہوں نے مسلح تشدد، خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کو غیرشرعی قرار دیا تھا جس پر ٹی ٹی پی کا پاکستانی علماء سے شکوہ بھی ہے مگر طالبان مسلح جدوجہد کو جہاد سمجھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا ‘بظاہر ٹی ٹی پی امریکہ کے خلاف مسلح جدوجہد کو جہاد سمجھتی تھی مگر اب تو امریکہ افغانستان سے نکل چکا ہے اور افغانستان میں اسلامی نظام قائم ہوا ہے تو اس صورتحال میں علماء کا وفد اعتماد کی بحالی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔’

مذاکرات پر گہری نظر رکھنے والے اسلام آباد میں مقیم سینئر صحافی طاہر خان کا کہنا تھا کہ رسمی طور پر علماء یا افغان طالبان کی طرف سے کوئی تفصیل نہیں دی گئی لیکن ان کی معلومات کے مطابق ایک وفاقی وزیر سمیت 18 رُکنی وفد افغانستان پہنچ گیا ہے۔

انہوں نے وفد میں شامل افراد کا نام لے کر کہا کہ مفتی تقی عثمانی، وفاق المدارس کے مہتمم حنیف جالندھری، مختارالدین شاہ کربوغہ، مولانا انوار الحق، فوجی و خفیہ ادارے کے سابق اہلکار میجر عامر کے بھائی مولانا محمد طیب، شیخ ادریس اور وفاقی وزیر برائے سیفران طلحہ محمود شامل ہیں۔

طاہر خان نے ٹی این این کو بتایا کہ ٹی ٹی پی مفتی تقی عثمانی اور وفد میں موجود دیگر علماء کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے تو اس حوالے سے ریاست نے علماء کی مدد لے کر انہیں افغانستان بھیج دیا ہے۔

مذاکرات پر پارلیمان کو اعتماد میں لینے سے متعلق ایک سوال پر طاہر خان نے بتایا کہ اسلام آباد میں پارلیمان کی سیکورٹی کمیٹی کو فوج نے مذاکرات پر بریفنگ دی تھی جس کے بعد فوج کو گرین سگنل دے کر افغانستان میں مذاکرات کیلئے وفد بھیجا گیا اور آج کے مذاکراتی وفد کا جائزہ بھی پارلیمانی کمیٹی لے رہی ہے۔

افغان طالبان کی ثالثی پر یکم جون کو قبائلی عمائدین پر مشتمل وفد افغانستان گیا تھا جہاں پر ٹی ٹی پی نے اسلام آباد سے مطالبہ کیا تھا کہ افغانستان کی سرحد پر واقع قبائلی اضلاع کو دوبارہ پرانی حیثیت میں بحال کیا جائے۔

اگرچہ حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں نامعلوم مدت کیلئے دونوں اطراف سے سیز فائر کا اعلان ضرور کیا گیا ہے تاہم خیبر پختونخوا کے قبائلی و بندوبستی علاقوں میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بھی تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔

فاٹا ریسرچ سنٹر کے مطابق جون میں 31 حملوں میں 14 سیکورٹی اہلکار شہید اور 9 زخمی جبکہ 22 سویلین اور 21 دہشت گرد مارے گئے ہیں جبکہ 19 جولائی تک سیکورٹی فورسز کے 4، سویلین 12 افراد جاں بحق اور 14 دہشت گرد مارے گئے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ سابق قبائلی اضلاع میں ٹی ٹی پی کے سپلنٹر گروپ حافظ گل بہادر گروپ اور داعش مذاکرات کی ناکامی کیلئے حملوں میں مصروف ہیں اور ان کا مقصد اپنی موجودگی ظاہر کرنا اور خود کو مضبوط کرنا ہے۔

پاکستانی فوج کے محکمہ اطلاعات آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا تھا کہ شمالی وزیرستان میں خفیہ اطلاع پر آپریشن میں تین دہشت گرد مارے گئے ہیں جبکہ اہم کمانڈر زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ہلاک دہشت گردوں کا تعلق حافظ گل بہادر گروپ سے تھا جو سیکورٹی فورسز اور سویلینز کی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور دیگر سنگین جرائم میں مطلوب تھے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button