شاہین آفریدی
پاکستان اور افغانستان کے درمیان لگژری بس سروس رواں سال اگست کے آخر تک پشاور اور جلال آباد کے درمیان دوبارہ شروع کر دی جائے گی۔
18 سے 20 جولائی تک پاکستان کے وزیر تجارت محمد صالح احمد فاروقی کی قیادت میں اک وفد نے دوطرفہ اقدامات اور ٹرانزٹ ٹریڈ اور علاقائی روابط کو مضبوط بنانے کے لیے تین روزہ کابل کا دورہ کیا۔
کابل میں پاکستانی سفارتخانے کی خبر کے مطابق اعلیٰ حکام نے دونوں ممالک کے درمیان دوستی بس سروس دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا۔
اس سے قبل گزشتہ سال نومبر میں پاکستان نے دونوں ممالک کے درمیان 5 سال سے معطل رہنے والی ‘فرینڈ شپ بس سروس’ کو دوبارہ شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی تاہم مناسب ٹرانسپورٹ کمپنی نہ ہونے کی وجہ سے یہ سروس شروع نہیں ہو سکی تھی۔
"دوستی بس سروس” کا آغاز مارچ 2006 میں پائلٹ بنیادوں پر کیا گیا تھا اور اسی سال 26 مئی کو 1,300 بسوں کے ساتھ باضابطہ طور پر شروع کیا گیا تھا۔ اس سروس سے اس وقت ایک دن میں تقریباً 1000 افراد کو سہولیات فراہم کی جاتی تھیں لیکن چھ سال قبل دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باعث اسے روک دیا گیا تھا۔
پشاور کے کمشنر ریاض محسود نے دوستی بس سروس کے آغاز کے بارے میں میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے بس سروس اور مسافروں کو محفوظ رکھنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر منصوبہ بنایا ہے۔
بس سروس دوبارہ شروع ہونے کے بعد امیگریشن حکام مسافروں کے کاغذات اور بس ٹرمینلز پر موجود دیگر سہولیات کی جانچ کریں گے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مسافروں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
انہوں نے کہا، "پشاور سے جلال آباد تک پہلے منصوبے کی کامیابی کے بعد، اسلام آباد اور کابل کے درمیان مسافروں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے دوسرے مرحلے میں بس سروس کو بڑھایا جائے گا۔”
اس منصوبے کے تحت افغانستان سے تقریباً 40 بسیں اور پاکستان سے 40 بسیں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں افراد کو لائیں اور لے جائیں گی۔ یہ بس سروس افغان پناہ گزینوں کے خاندانوں، کاروباری افراد اور سرحد کے دونوں جانب کام کرنے والے مقامی لوگوں کے لیے ایک بہترین معاون ثابت ہو گی۔
پشاور کے ایک مقامی تاجر شاہ ولي نے دونوں ممالک کے درمیان اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ ‘پاک افغان دوستی بس سروس پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان دوستی اور بھائی چارے کی علامت ہے اور اگر یہ سروس دوبارہ شروع کی جاتی ہے تو پھر سرحد کے اس پار زیادہ تر لوگ آسانی سے چل پائیں گے، "میں اکثر پشاور کے کارخانو بس اسٹینڈ سے کرائے پر لی گئی ٹیکسی پر سارا سامان لوڈ کرتا ہوں اور پھر طورخم پر اتارتا ہوں، اور پھر اسے افغانستان کی طرف سے دوسری ٹیکسی پر لوڈ کرتا ہوں، اور پھر جلال آباد کا سفر کرتا ہوں جو کہ مصروف اور مہنگا ہوتا ہے۔”
جلال آباد کے رہائشی اور پشاور سے کاروبار کرنے والے سراج شينواری نے بتایا کہ لوگ افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر گھنٹوں انتظار کرنے پر مجبور ہیں، "کچھ لوگ علاج کے لیے پاکستان آتے ہیں، کچھ اپنے رشتہ داروں سے ملنے آتے ہیں، چھوٹے تاجر بھی ان سرحدوں کے ذریعے پاکستان آتے ہیں، اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بہت تکلیفوں کی وجہ سے پاکستان نہیں جاتے، پاک افغان دوستی بس سروس ایک امید افزا بات ہے۔”
بلوچستان سے بھی "پاک افغان دوستی بس سروس” کی تجویز دی گئی ہے تاہم حکومت پاکستان نے پہلے مرحلے میں طورخم کے راستے دوستی بس سروس دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان افغان دارالحکومت کابل میں منعقدہ مذاکرات میں پاک-افغان لگژری بس سروس دوبارہ شروع کرنے اور تمام کراسنگ پوائنٹس، طورخم، خرلاچی، غلام خان اور چمن اسپن بولدک پر آپریشنل اوقات بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ سرحد پار کرنے کے لیے انتظامات مزید مؤثر بنانے اور سرحد پر ٹرانزٹ ٹریڈ کی فوری کلیئرنس میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں گی۔
یہ بھی خیال رہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 22-2021 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم ایک ارب 55 کروڑ ڈالر رہا، افغانستان نے 83.4 کروڑ ڈالر جبکہ پاکستان نے تقریبا 75 کروڑ ڈالر کی برآمدات کیں، اس طرح توازن تجارت افغانستان کے حق میں رہا جو 8.4 کروڑ ڈالر بنتا ہے۔