سیاست

پاک طالبان امن مذاکرات میں تحریک انصاف کا کردار

محمد فہیم

پشاور کے آل سینٹ چرچ کوہاٹی میں 22 ستمبر 2013 کو دو خودکش حملہ آوروں نے حملہ کرتے ہوئے 100 سے زائد شہریوں کو جاں بحق جبکہ اڑھائی سو سے زائد کو زخمی کر دیا تھا۔

اتوار کے روز ہونے والے خودکش دھماکے میں زخمیوں کی عیادت اور جاں بحق افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کیلئے دنیا بھر سے لوگ پشاور آئے۔ اس وقت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی بدھ کے روز پشاور کا دورہ کیا اور پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دھماکے کی مذمت اور اپنے خیالات کا اظہار کیا تاہم ان کی میڈیا ٹاک نے اچانک سے دنیا بھر کے میڈیا کی شہ سرخیوں میں جگہ بنا لی کیونکہ انہوں نے تحریک طالبان پاکستان کو دفتر کھولنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا اور ان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے پر بھی زور دیا تھا۔

چیئرمین تحریک انصاف کو اس پریس ٹاک کے بعد شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ایک ہی برس کے بعد پشاور کے آرمی پبلک سکول حملے نے عمران خان کو اس مطالبہ پر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا تاہم وہ اس بات پر قائل تھے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات ہی مسئلے کا واحد حل ہے۔ عمران خان 2018 کے انتخابات میں کامیاب ہوئے اور تین برس 7 ماہ سے زائد وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان رہے۔ اس عرصہ میں انہوں نے کئی فیصلے اور کئی اقدامات اٹھائے ہوں گے تاہم ان سب میں ایک تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کا آغاز بھی شامل ہے۔

چندر وز قبل وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور چند پارلیمان سے باہر موجود سیاسی رہنماﺅں نے شرکت کی۔ اجلاس کو ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) جنرل ندیم انجم نے بریفنگ دی اور سیاسی قیادت کو مذاکرات کے حوالے سے آگاہ کیا جبکہ مذاکرات کرنے یا نہ کرنے سے متعلق پارلیمان کی رائے بھی طلب کی۔

اجلاس کے اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے مذاکرات آگے بڑھانے کی منظوری دی ہے اور اب آئین پاکستان کے تحت کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات ہوں گے۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے اس حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات ابھی ”پری ڈائیلاگ“ کے سٹیج پر ہیں یعنی ابھی مذاکرات شروع نہیں ہو سکے ہیں تاہم اگر گزشتہ 10 ماہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ اجلاس نہ تو اچانک بلایا گیا ہے اور نہ ہی ایسے معاملات یوں اچانک شروع کئے جاتے ہیں۔

افغانستان میں امارات اسلامی کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں بھی بیک ڈور چینلز پر بات چیت کا آغاز کر دیا گیا تھا اور گزشتہ برس شروع ہونے والے اس عمل کو پہلی مرتبہ تب منظر عام پر دیکھا گیا جبکہ حکومت پاکستان نے 50 رکنی وفد کابل بھجوا کر کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھول دیا۔

کئی تجزیہ کار قومی سلامتی کمیٹی میں تحریک انصاف کی عدم موجودگی پر سوال اٹھا رہے ہیں اور یہ خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی عدم موجودگی سے اس مذاکراتی عمل کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی حمایت حاصل نہیں ہے تاہم اگر ماضی کو دیکھا جائے تو مذاکرات کا مطالبہ کرنے والی سب سے پہلی جماعت بھی یہی سب سے بڑی جماعت ہے اور اسی جماعت کے وزیر اعظم کی موجودگی میں یہ عمل شروع کیا گیا تھا لہٰذا اس جماعت کے مذاکراتی عمل سے باہر ہونے کا دعوی درست نہیں ہے۔  پی ٹی آئی اس عمل میں شریک بھی ہے اور اس کی اس عمل کو مکمل حمایت بھی حاصل ہے۔

دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ فاٹا اصلاحات واپس لی جائیں یعنی انضمام کا فیصلہ واپس لیا جائے جبکہ حکومت پاکستان کا مطالبہ ہے کہ تحریک طالبان تحلیل کر دی جائے یعنی اس کا کوئی وجود نہیں رہے گا۔

جائزہ لیا جائے تو دونوں فریق انتہائی دور کھڑے ہو کر ایک پوزیشن لے رہے ہیں اور اگر جرگہ کی بات کی جائے تو جرگہ ہمیشہ شروع بھی ایسا ہوتا ہے۔ جب دونوں فریقین اپنی سب سے سخت شرط پہلے رکھ دیتے ہیں ایسے میں مذاکرات اور بات چیت شروع ہوتی ہے جس میں دونوں ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دونوں اپنے سخت ترین مطالبہ میں لچک پیدا کرتے ہیں تاکہ دونوں فریقین ان مذاکرات سے کچھ نہ کچھ لے کر جائیں۔

کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ بھی مذاکرات کا دور کچھ ایسا ہی ہے، ابھی اس کا آغاز ہے جس میں دونوں فریق یعنی کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور حکومت پاکستان انتہائی پوزیشن لئے ہوئے ہیں۔ اب جب گفتگو ہو گی، بات چیت آگے بڑھے گی تو دونوں کے موقف میں لچک بھی سامنے آئے گی۔

حکومت پاکستان نے چند ہفتے قبل 50 رکنی وفد کابل بھیجا اور اب بتایا جا رہا ہے کہ علماء کا وفد کابل جا کر کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ بات کرے گا یعنی دونوں کے مابین مذاکرات کا ایک دور شروع ہو جائے گا اور برف پگھلنی شروع ہو جائے گی۔

اس دوران تحریک طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان انتہائی خوش آئند ہے جو اس خطے میں امن کا ضامن بھی بن سکتا ہے تاہم بات چیت صرف ان دو فریقین کے مابین محدود نہیں رہے گی، اس خطے میں ایک اور فریق بھی آ گیا ہے اور اس فریق نے سرحد پار بھی تباہی مچا دی ہے، ان مذاکرات میں اس تیسرے فریق یعنی داعش خراسان کے حوالے سے بھی کافی بات ہو گی جس پر اس خطے کے ہر شہری کی گہری نظر ہو گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button