وکلاء تحریک کامیاب، ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر معطل
کے پی حکومت نے تفصیلی غور و خوض کے بعد احتجاج کرنے والے وکلاء کا مسئلہ حل کر دیا۔ ڈی سی آفس پشاور پر حملے میں ملوث ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر (اے اے سی) اور نامزد وکلاء کو غیرجانبدارانہ انکوائری کے لیے معطل کر دیا گیا ہے اس لیے اس واقعے کی روشنی میں شروع کی گئی تمام متعلقہ کارروائیوں، رٹوں اور شکایات کا باہمی طور پر تصفیہ کیا جائے گا۔
حکومت نے سرکاری فرائض کے قانونی تحفظ کے حوالے سے سرکاری ملازمین کی طرف سے اٹھائے گئے مسائل کا بھی نوٹس لیا اور یقین دلایا کہ اس کے مطابق انہیں پورا کیا جائے گا۔ مستقبل میں ایسی کسی بھی صورت حال کو روکنے کے لیے ایک مناسب فریم ورک بھی بنایا جائے گا۔
خیبر پختونخوا حکومت نے اے اے سی اور وکلا کا تنازع کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ ای سی سی اور ڈی سی آفس پر حملہ کرنے والے وکلا کی پریکٹس کی معطلی کا فیصلہ کیا تاکہ معاملے کی غیرجانبدارانہ انکوائری ہو گی۔
14 دن عدالتی بائیکاٹ، ہزاروں کیسز التوا کے شکار ہونے کے بعد ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر آفتاب احمد کا سپریم کورٹ کے وکیل غفران اللہ شاہ پر مبینہ تشدد کے معاملے پر حکومت نے آخر کار اے اے سی کو معطل کر دیا ہے۔ حکومت نے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر آفتاب احمد کی معطلی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔
ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل فاروق آفریدی ایڈوکیٹ نے بتایا کہ وکلاء کے مطالبے پر حکومت نے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر کو معطل کر دیا ہے، اے اے سی کی معطلی ہمارا پہلا مطالبہ تھا جس کو حکومت نے مان لیا ہے۔
https://youtu.be/EMlPjeC1HoY
فاروق آفریدی نے بتایا کہ اے اے سی کی معطلی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب ہم آرام سے بیٹھیں گے، معطلی ہمارا پہلا مطالبہ تھا اب ہم چاہتے ہیں کہ اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرائے جائے اور متعلقہ اے اے سی کے خلاف ڈیپارٹمنٹل کارروائی بھی کرائی جائے۔
معاون خصوصی اطلاعات خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر محمد علی سیف نے بھی اے اے سی کی معطلی کی تصدیق کی ہے۔ اپنے بیان میں بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ واقعے میں شامل ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر کو معطل کیا گیا ہے اور ڈپٹی کمشنر کے دفتر پر حملے میں نامزد وکلاء کے لائسنس بھی بار کونسل نے معطل کئے ہیں۔
بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ اس واقعہ سے متعلق شکایات اور مقدمات باہمی رضامندی سے نمٹائے جائیں گے اور حکومت سول افسران کے دوران ڈیوٹی قانونی تحفظ بارے سنجیدہ اقدامات اٹھائے گی اور اس حوالے سے باقاعدہ فریم ورک پر کام شروع کیا گیا ہے۔
وکلاء نے مطالبات کی منظوری کے لئے اج خیبر پختونخوا اسمبلی کے سامنے دھرنا بھی دیا تھا۔ فاروق آفریدی نے بتایا کہ ہم روڈ بند نہیں کرنا چاہتے تھے، ہم نے 14 دن عدالتی بائیکاٹ کیا، پرامن طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا لیکن حکومت نے ہمارے مطالبات کو سنجیدہ نہیں لیا، مجبوراً سڑک پر دھرنا دیا، اب حکومت نے ہمارا پہلا مطالبہ مان لیا ہے، ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر کو معطل کیا گیا ہے، ہم عوام کو تکلیف نہیں دینا چاہتے ہم نے دھرنا ختم کر دیا ہے، حکومت اگر ہمارے مطالبے کو پہلے مان لیتی تو دھرنے کی نوبت نہ آتی آج ہم خیبر روڈ کو بند نہ کرتے۔
عدالتی بائیکاٹ ختم کر دیا ہے یا جاری رہے گی اس پر سوال پر فاروق آفریدی ایڈوکیٹ نے بتایا کہ عدالتی بائیکاٹ جاری رکھنا ہے یا ختم کرنا ہے، یہ فیصلہ خیبر پختونخوا بار کونسل کرے گی۔
ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر کے وکیل غفران اللہ شاہ پر تشدد کا واقعہ 2 اور 3 جون کی درمیانی شب چمکنی کے علاقے میں ایک پٹرول پمپ پر پیش آیا تھا۔
متاثرہ وکیل غفران اللہ کے مطابق اے اے سی لائن سے ہٹ کر پہلے پٹرول ڈلوانا چاہتے تھے، بڑی تعداد میں لوگ پٹرول پمپ پر کئی گھنٹوں سےلائن میں اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے، اے اے سی آئے اور گاڑی آگے کر دی، منع کرنے پر اے اے کے سیکیورٹی گارڈز نے تشدد کیا اور تھانے لے جا کر میرے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرا دی۔
وکلاء نے سپریم کورٹ کے وکیل غفران اللہ شاہ پر تشدد کے خلاف 4 جون سے عدالتی بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ 4 جون سے صوبہ بھر کے وکلاء عدالتوں میں پیش نہیں ہو رہے جس کی وجہ سے عدالت آنے والے سائلین کو بھی شدید مشکلات کا سامنا رہا۔
پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور پشاور بار کی 22 اے درخواست پر مقامی عدالت نے ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر آفتاب احمد اور ان کے سٹاف کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا جس کے بعد متعقلہ تھانے میں اے اے سی اور سٹاف کے 5 ممبران کے خلاف ایف ائی آر درج ہوئی۔ اے اے سی آفتاب احمد نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے راہ داری ضمانت لے لی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے متعلقہ افسر کی 17 جون تک راہداری ضمانت منظور کر لی اور حکم دیا ہے کہ وہ 17 جون تک متعلقہ سیشن کورٹ میں پیش ہوں۔
دوسری جانب اسلامک لائرز موومنٹ پشاور کے صدر فقیر اللہ اعوان نے وکلاء برادری کو کامیاب تحریک چلانے پر مبارکباد دیتے ہوئے ککہا کہ اس ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں، بیورو کریسی اس ملک کی کمزوری اور معاشی ناکامی میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے، انگریز دور کے اس فرسودہ افسر شاہی نظام نے ہمیں ترقی سے ہزاروں میل دور کر دیا ہے، سول انتظامیہ میں جو افسر عوام کی خدمت کے لیے بھرتی ہوئے ہیں وہ عوام کی خدمت کی بجائے اُلٹا غریب لوگوں پر افسر شاہی کر رہے ہیں، افسر شاہی کے اس نظام کو بدلنا ہو گا وکلاء نے اس افسر شاہی کے خلاف آواز اٹھائی اور تحریک شروع کی جو کامیابی سے ہم کنار ہوئی۔
دھرنے کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وکلاء ہمیشہ قانون اور آئین کی پاسداری کے لیے جیل گئے اور شہادتیں دیں، ہم اس ملک میں امن کے خواہاں ہیں اور وکلاء ملک میں کسی بھی ظالم اور جابر کے سامنے جھکنے والے نہیں ہیں بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے ہیں۔