صحت

کورونا وباء کے دوران چلائی گئی میڈیا مہم کتنی موثر رہی؟

رفاقت اللہ رزڑوال

خیبر پختونخوا میں کورونا وائرس کے متعلق مہم پر عوام نے اطمینان کا اظہار کیا ہے جبکہ میڈیا ماہرین کا کہنا ہے کہ پیغامات کی ترسیل میں مقامی زبانوں کا خیال نہیں رکھا گیا جس کی حساسیت سے بیشتر لوگ لاعلم رہے تھے۔
کورونا وائرس کے دوران حکومت کی جانب سے اُٹھائے گئے اقدامات پر شمالی وزیرستان کے عوام نے بتایا کہ کورونا وائرس کے متعلق حکومت کے اُٹھائے گئے اقدامات کسی حد تک اطمینان بخش تھے لیکن اس میں مزید بہتری کی گنجائش تھی۔

شمالی وزیرستان کے رہائشی انور خان نے بتایا کہ وباء کے دوران بازاروں کی بندش کیلئے موثر اقدامات سے وباء کنٹرول ہو گئی، کہا کہ سماجی فاصلوں پر پابندی اور ماسک سینیٹائزر کے عدم استعمال کے خلاف اُٹھائے گئے اقدامات سے وبا پر قابو پانے میں مدد ملی ہے۔

انور خان نے مزید بتایا کہ اب تک عوام پر یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ کتنے افراد متاثر ہوئے ہیں اور کتنے افراد نے اپنی جانوں کی قربانی دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں صرف یہ بتایا گیا تھا کہ کورونا وباء پھیل گئی اور سکولوں کو بند کر دیا جس سے بچوں کی پڑھائی پر منفی اثرات پڑ گئے۔

مردان سے رفاقت نامی خاتون نے بتایا کہ حکومتی کارکردگی کسی حد تک اطمینان بخش تھی کیونکہ ایک طرف تو اُٹھائے گئے اقدامات سے سماجی فاصلوں میں کمی واقع ہوئی لیکن دوسری طرف ان کے بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری طرف لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار متاثر ہوا تھا، اگر حکومت ان مسائل کیلئے کوئی دوسرا متبادل راستہ نکالتی تو شائد عوام اور طلباء کو درپیش مسائل میں تھوڑی کمی آ جاتی۔

کورونا وباء کے دوران میڈیا پر چلنے والی مہم کو میڈیا ماہرین کس نظر سے دیکھتے ہیں، اس حوالے سے پشاور یونیورسٹی جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر فیض اللہ جان نے بتایا کہ پاکستان میں کورونا کے دوران کافی حد تک دیگر ممالک کی نسبت شرح اموات کم تھی تو اس حوالے سے ہم سمجھتے ہیں کہ مہم کامیاب تھی۔ اس کے علاوہ جو افواہیں پھیلائی گئی تھیں تو این سی او سی نے ان افواہوں کے خلاف جو حکمت عملی ترتیب دی وہ اتنی زیادہ موثر نہ تھی۔
انہوں نے کہا کہ ویکسین دیہاتی علاقوں میں بڑی دیر سے پہنچی جبکہ اس کے برعکس شہری علاقوں میں بروقت پہنچی تھی لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ترقیاتی عمل یا سہولیات بیک وقت پورے علاقے میں نہیں پہنچتیں تو تب تک مکمل ترقی ممکن نہیں۔

ڈاکٹر فیض نے کہا کہ این سی او سی کی جانب سے عوام کو پہنچانے والے عوامی پیغامات میں زبانوں کا خیال نہیں رکھا گیا تھا کیونکہ خیبر پختونخوا میں بیشتر پشتو زبان کے لوگ رہتے ہیں جبکہ این سی او سی کے پیغامات زیادہ تر اردو زبان میں تھے تو اس سے عوام کو سمجھنے میں مسئلہ درپیش تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران ایس او پیز کے نفاذ اور ویکسین لگانے پر زیادہ توجہ دی گئی تھی جس سے عوام میں خوف پیدا ہو گیا تھا کیونکہ موبائل فون پر سنے جانے والے اشتہار سے عوام تنگ آ چکے تھے، کہا کہ جو لوگ غیرتعلیم یافتہ ہوتے ہیں ان کے لئے پہلی شرط یہ تھی کہ ان کی اپنی مادری زبان میں پیغامات ہونے چاہئے تھے جبکہ دوسرا یہ کہ پیغامات ویڈیوز یا تصویری شکل میں ہونے چاہئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پیغامات کو مزید موثر بنانے کیلئے سب زبانوں پر فوکس کرنا چاہئے جبکہ یہ بھی تفریق کرنا چاہئے کہ ان کا پیغام معاشرے کے کن افراد کیلئے ہے، اگر خواتین کیلئے ہو تو ان کی تعلیم، رہن سہن، معاشرتی روایات اور اقدار کو دیکھتے ہوئے پیغامات بنانے چاہئیں۔

کورونا وائرس میں کمی سے این سی او سی کے دفاتر بند کر دیئے گئے ہیں، اس بارے ڈاکٹر اکرام اللہ خان کا کہنا تھا کہ کورونا وبا کے دوران وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے محکمہ صحت نے مشترکہ طور پر اپنی خدمات سرانجام دیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وبا نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس کی روک تھام کیلئے ایک مضبوط رابطہ کاری کا نظام موجود ہونا چاہئے تھا جس کے لئے وفاقی سطح پر این سی او سی کا قیام عمل میں لایا گیا اب چونکہ این سی او سی ختم ہو گیا لیکن اس کے ساتھ محکمہ صحت کا نظام نہایت مضبوط ہو گیا۔

ڈاکٹر اکرام نے کہا کہ اس وبا سے محکمہ صحت نے بہت کچھ سیکھا، اس بیماری کے حوالے سے تمام اداروں نے بہت کچھ سیکھا کیونکہ اس طرح کی وبا پہلی کبھی نہیں آئی تھی، اس کے علاوہ انہیں یہ یقین ہوا کہ پاکستان میں اداروں کے درمیان کوآرڈینیشن مضبوط ہے۔

اس کے مطابق اب چونکہ وبا ختم ہو گئی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بے فکر ہو گئے اب بھی ہم عوام کو مختلف میڈیمز کے ذریعے اس وباء یا دوسری بیماریوں سے آگاہ کرتے رہتے ہیں کیونکہ اب بھی وباء کا خطرہ ہے اور جن لوگوں کی ویکسینیشن نہیں ہوئی تو انہیں چاہئے کہ ویکسینیشن کا عمل مکمل کریں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button