سیاست

بلدیاتی انتخابات میں الیکٹیبلز کی انٹری: عدم اعتماد کا پریشر یا پرویز خٹک کا سیاسی داؤ؟

عمیر محمدزئی

ایک طرف موسم گرم ہو رہا ہے تو دوسری طرف سیاست کا درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے، گرمی بڑھنے کی وجہ تو کل ہی محکمہ موسمیات نے بتا دی ہے تاہم سیاسی گرمی بڑھنے کی وجہ یقینی طور پر تحریک عدم اعتماد ہی ہے، اب سوال یہ ہے کہ یہ ”گرمی“ کس حد تک بڑھے گی، کب موسم میں تبدیلی کا امکان ہے اور کیا یہ ”گرمی” خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات پر اثرانداز ہو گی؟

اسے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا پریشر کہیں یا پرویز خٹک کا روایتی سیاسی داؤ کہ خیبر پختونخوا میں 31 مارچ کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں متعدد اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے قریبی رشتہ داروں کو تحصیل ناظم کے ٹکٹ دیے گئے ہیں۔

عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی یا ناکامی دونوں صورتیں یقینی طور پر ان انتخابات پر اثرانداز ہوں گی تاہم اس سے قطعہ نظر ان انتخابات میں پی ٹی آئی کو وزیراعلیٰ کے آبائی ضلع سوات اور ضلع لوئر دیر میں اپنے ناراض امیدواروں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ دونوں اضلاع میں ایک درجن کے قریب پارٹی کے ناراض ارکان بطور آزاد امیدوار کھڑے ہیں۔وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے اس واضح پیغام کے بعد کہ ’تمام آزاد امیدوار پی ٹی آئی کے حق میں دستبردار ہو جائیں‘ اب تک صرف ایک امیدوار نے انتخابات سے دستبرداری کا اعلان کیا ہے جس سے پارٹی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کم نشستیں ملنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ دوسرے مرحلے کے لیے امیدواروں کے چناؤ کے عمل کو وہ خود دیکھیں گے لیکن شاید تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے وہ اراکین اسمبلی کو ناراض کرنے کے موڈ میں نہیں تھے اور زیادہ تر ٹکٹ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی سفارش پر دیئے گئے جو انہوں نے اپنے قریبی عزیزوں میں بانٹے۔

31 مارچ کو ہونے والے انتخابات میں پی ٹی آئی نے جن تحصیل امیدواروں کو پارٹی کے ٹکٹ دیئے ہیں ان میں سے دیر کے حلقہ سے منتخب رکن اسمبلی محبوب شاہ کے بھائی فیروز شاہ کو تحصیل ادینزی، دیر ہی سے تعلق رکھنے والے ایم این اے بشیر خان کے بھتیجے جواد خان کو تحصیل ثمر باغ، وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی شفیع اللہ خان کے بیٹے کاشف کمال کو تیمرگرہ، وزیراعلیٰ کے بھائی عبداللہ خان ضلع سوات کی تحصیل مٹہ سے، اپر سوات کی تحصیل خوبزہ خیلہ سے ایم این اے ڈاکٹر حیدر علی کے بھتیجے آفتاب علی خان، مدین سے رکن صوبائی اسمبلی میاں شرافت علی کے بھائی میاں شاہد علی، سوات ہی کے تحصیل بابوزئی سے ایم پی اے فضل حکیم کے بہنوئی شاہد علی، تحصیل بریکوٹ سے صوبائی وزیر ہاوسنگ ڈاکٹر امجد کے بھانجے کاشف خان جبکہ تحصیل چار باغ سے مقامی ایم پی اے عزیز اللہ گران کے قریبی دوست کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔

اسی طرح مانسہرہ سے رکن صوبائی اسمبلی بابر سلیم سواتی کے بھتیجے، ضلع مالاکنڈ کی تحصیل درگئی سے ایم پی اے اور وزیراعلی کے قریبی پیر مصور کے بھائی اسلام خان، ضلع بٹ گرام سے ایم پی اے اور وزیراعلی کے معاون خصوصی تاج محمد ترند کے بھائی عطاء اللہ ترند جبکہ بٹ گرام سے رکن قومی اسمبلی پرنس نواز خان کے بھتیجے گوہر خان تحصیل الائی سے میدان میں ہیں۔

وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید، صوبائی وزیر شکیل خان اور ایم پی اے ہمایون خان ہی ایسے رہنماؤں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے کسی عزیز کے لیے نہیں ٹکٹ نہیں مانگا اور کارکنوں کے سفارشی رہے۔

سوات اور دیر میں 10 کے قریب پی ٹی آئی کے ناراض اراکین کھڑے ہیں جن میں وزیراعلی کا حلقہ بھی شامل ہے۔ پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ اگر انتخابات سے قبل یہ مسئلہ حل نہیں کیا گیا تو پارٹی ووٹ تقسیم ہونے کا خدشہ ہے جس کا فائدہ دوسری سیاسی جماعتوں کو ہو سکتا ہے۔

دیر سے تعلق رکھنے والے انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن کے صوبائی ڈپٹی کنوینئر عارف خان کہتے ہیں کہ آزاد امیدواروں کے کھڑے ہونے سے کوئی نقصان نہیں ہو گا کیونکہ پارٹی کارکنان بلے ہی کو ووٹ دیں گے لیکن اس کے برعکس اسی ضلع کے انصاف یوتھ ونگ کے نوجوان جہان زاداہ کہتے ہیں کہ اس بار آزاد سرکار، انہوں نے بتایا کہ 27 مارچ کو عمران خان کیلئے ڈی چوک اور 31 مارچ کو موررثی سیاست کے خاتمے کیلئے میدان میں نکلیں گے۔

کارکنوں میں ایک تاثر پایا جاتا ہے کہ جب سے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک صوبائی صدر بنے ہیں صوبے میں الیکٹیبلز کی سیاست کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔

آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والے ضلع دیر کے ناراض رہنما علی شاہ مشوانی جو کئی برسوں سے پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جو گزشتہ عام انتخابات کی طرح ان انتخابات میں بھی پیراشوٹرز کو ایڈجسٹ کیا گیا جو کہ افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب میرا فیصلہ قوم/پی ٹی آئی کے ورکرز کریں گے کہ کدھر جانا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button