تعلیم

تعلیم نسواں: چغرزئی کے کئی خاندان ہجرت، بچیاں ہاسٹل میں رہنے پر مجبور

عظمت حسین

اختر ناز کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر، تحصیل چغرزی سے ہے۔ اپنی دو بیٹیوں، شوہر اور ان کی دو بھتیجیوں کے ہمراہ بچیوں کی بہتر تعلیم کے لئے علاقہ چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہو چکی ہیں اور بونیر کے مرکزی بازار سواڑی میں کرایہ کے گھر میں رہتی ہیں۔ بڑی بیٹی کی عمر بارہ سال ہے جو کہ چھٹی جماعت جبکہ چھوٹی بیٹی ابھی اول جماعت میں پڑھتی ہے۔

اختر ناز کا یہ ماننا ہے کہ بیٹیاں خدا کا بہترین انعام ہیں اور یہ کہ ان کے بہتر مستقبل کے لیے تعلیم حاصل کرنا ان کا بنیادی حق ہے۔ اختر ناز کا کہنا ہے: ”میں ان چھ بچیوں کے خوابوں کی تعبیر کے لیے جو بھی کر سکتی ہوں اس سے پیچھے نہیں ہٹوں گی کیونکہ تعلیم وہ واحد تحفہ ہے جو والدین اپنی بیٹیوں کو دے سکتے ہیں جو مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ان کی ضامن ہے۔”

اختر ناز کا کہنا ہے کہ ہمارے وسائل محدود ہیں کیونکہ میرا شوہر فری لانسنگ کا کام کرتے اور مہینے کے بمشکل بیس سے پچیس ہزار کماتے ہیں جس سے بمشکل گزارا ہوتا ہے کیونکہ گھر کے اخراجات اور بچیوں کے سکول کی فیس اچھی خاصی بن جاتی ہے لیکن ہم ہر طرح سے اپنے اخراجات میں کٹوتی کر کے اپنی بچیوں کے لئے اس امید کے ساتھ وقت بِتاتے ہیں کہ ہماری بچیوں کا مستقبل روشن ہو اور کسی کے سہارے کی محتاج نہ ہوں اور ان کی آنے والی زندگی کم از کم ہم سے بہتر ہو۔

علاقہ چھوڑنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ قریب قریب لڑکیوں کے لئے سکول نہیں تھا جہاں بچیاں میٹرک تک پڑھ سکیں، ”ہمارے علاقے میں لڑکیوں کا سکول ہم سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جہاں پیدل جانا ناممکن ہے اور سکول کے ساتھ ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی نہیں ہے اسی لئے میری بیٹیوں جیسی سینکڑوں بیٹیاں حصول تعلیم سے محروم ہیں، نتیجتاً پانچویں جماعت تک پڑھنے کے بعد یا تو لڑکیاں سکول کو خیرباد کہہ کر گھروں میں بیٹھ جاتی ہیں اور یا  جن لوگوں کی کمائی اچھی ہوتی ہے ان کی بچیاں ہاسٹلوں میں رہتی ہیں جہاں وہ فی بچی بارہ سے پندرہ ہزار روپیہ مہینے کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔

سعید رسول قریشی کا تعلق بھی چغرزی کے گاؤں گانشال سے ہے اور ان کا تعلق ایسے ہی خاندان سے ہے۔  ان کی تین بھتیجیاں اپنے گھر سے پچاس کلومیٹر دور ضلع بونیر کے مرکزی بازار سواڑی کے ایک نجی سکول میں پڑھتی ہیں جہاں وہ ہاسٹل میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے علاقے میں سکول نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو وہ پرائمری تک پڑھ لیں اور آگے پرائیویٹ تعلیم حاصل کریں یا گھر بیٹھ جائیں مگر جنہوں نے پرائیویٹ تعلیم حاصل کی ہے وہ آج مقابلے کے اس دور میں پیچھے رہ گئی ہیں کیونکہ ہر نوکری کے لئے ٹیسٹ لازمی دینا پڑتا ہے اور ایسی تمام بچیاں ٹیسٹ پاس کرنے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔

اپنی بھتیجیوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ میری دو بھتیجیاں جماعت ہفتم جبکہ ایک نہم جماعت میں پڑھتی ہے، ایک خاندان اور خاص طور پر ایک ماں کے لئے اس سے بڑی قربانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی بارہ، چودہ سال کی بیٹی اپنے سینے سے جدا کر کے اسے کوسوں دور کسی دوسرے کے سہارے چھوڑ دیتی ہے تاکہ وہ تعلیم حاصل کر سکے اور اس کی بہتر پرورش ہو سکے، ”ہمیں ہر وقت بچیوں کے رہن سہن، خوراک، صحت، ان کے سکول جانے اور واپس آنے کا انتظام کرنے کی فکر ستائے رہتی ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارے معاشرے میں لوگوں کی ہزارہا باتیں سن کر اس اذیت اور کرب سے بھی گزرنا پڑتا ہے کہ "لڑکیوں  کو ہاسٹل میں چھوڑ کے گھر مزے سے بیٹھے ہیں۔” پھر بھی ہم اپنی بچیوں کے لئے قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے لیکن اتنی ذمہ داری تو حکومت وقت کی بھی بنتی ہے کہ وہ اپنے لگائے گئے نعروں کو عملی جامہ پہنائے اور چغرزی کی بچیوں کو تعلیم جیسے بنیادی حق سے مزید محروم نہ رکھے۔”

ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ 15 سال سے کم عمر کے بچوں کا زیادہ عرصے تک والدین سے دور رہنا ان کی ذہنی و جسمانی نشوونما کو متاثر کر سکتا ہے کیونکہ اس عمر میں انسان میں جسمانی اور دماغی بڑھوتری کا عمل بڑی تیزی سے ہوتا ہے۔ اگر ان تبدیلیوں کو صحیح پرورش اور اصلاح و رہنمائی نہ ملے تو انسان کی کل وقتی زندگی پر اس کے بہت برے اور دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق کم عمری میں والدین سے دور رہنے والے اکثر بچے احساس محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں جنہیں جرائم پیشہ افراد آسانی سے اپنے فائدے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔

یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ جن کی حیثیت نہ ہاسٹل کی بھاری فیسیں برداشت کرنے کی ہے اور نہ کرایوں کے گھروں میں رہنے کی، ان بچیوں کے مستقبل کا کیا ہو گا؟ اسی سوال کے جواب میں ایسے ہی ایک خاندان کے سربراہ عمر خان بتاتے ہیں کہ میری بیٹی پانچویں تک پڑھی ہوئی ہے، وہ چاہتی تھی کہ آگے پڑھے مگر گھر اور گاؤں والوں کی باتیں اور  اعتراضات کا بوجھ اتنا تھا کہ مجھ میں اٹھانے کی سکت نہیں تھی اسی لئے اسے آگے پڑھنے سے روکا، بیٹی گھر پر بیٹھی ہو تو لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں اسی لئے سولہ سال کی عمر میں اس کی شادی کروانی پڑی، اپنی بیٹی کا گھر تو بسا دیا مگر باپ ہونے کے ناطے میں نے اس کی علم حاصل کرنے کی خواہش کا گلا گھونٹ دیا، اس کے علم کی روشنی سے گھر کا دیا منور ہو سکتا تھا جو بجھ گیا، میں باپ ہونے کے ناطے اس کو اپنی ناکامی تصور کرتا ہوں۔

واضح رہے تحصیل چغرزی میں لڑکیوں کے لئے میٹرک تک پڑھنے کا صرف ایک سرکاری سکول ہے جبکہ اس تحصیل کی کل آبادی ایک لاکھ دس ہزار سے اوپر ہے اور یہاں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد ساٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ناقابل فہم بات یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں گزشتہ نو سال سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اور اپنے 9 سالہ دور میں تحصیل چغرزی میں ایک بھی ہائی لیول کا سکول نہیں بنایا اور نہ اپ گریڈ کیا گیا جو کہ فنکشنل ہو اور علاقے کی بچیاں مستفید ہوں۔

بونیر کے مرکزی بازار سواڑی کے 4 نجی سکولوں میں اس وقت چغرزی کی تقریباً 100 سے اوپر بچیاں ہاسٹلوں میں رہ رہی ہیں اور سینکڑوں خاندان ایسے ہیں جنہوں نے حصول تعلیم کے لئے ہجرت کی ہے جو کہ سواڑی یا نزدیکی علاقوں میں کرائے کے گھروں میں رہ رہے ہیں تاکہ ان کی بچیوں کا مستقبل روشن ہو۔

چغرزی میں لڑکیوں کی ابتر تعلیم کی صورتحال پر جب ہم نے حلقہ پی کے 21 سے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی سید فخرجہان سے موقف جاننے کی کوشش کی تو انہوں یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صوبے میں چلنے والی گزشتہ 9 سال سے تعلیمی ایمرجنسی کی دعویدار موجودہ حکومت تعلیم جیسے بنیادی مسئلے کے حوالے سے کتنی سنجیدہ ہے۔

سالانہ اعداد و شمار جاری کرنے والے ادارے بیورو آف سٹیٹسٹکس حکومت خیبر پختونخوا کے سال 2020-21 کی رپورٹ کے مطابق ہر سال پرائمری لیول پر سکولوں میں 91 اعشاریہ 41 بچے داخل ہوتے ہیں جبکہ مڈل، ہائی اور ہائیر سیکنڈری لیول پر 69 فیصد بچے داخلہ لیتے ہیں  تاہم سکولوں میں سیشن کے اختتام تک جو بچے سال بھر پڑھائی جاری رکھتے ہیں ان کی شرح پرائمری لیول پر گٹھ کر 54 فیصد جبکہ مڈل، ہائی اور ہائیر سیکنڈری لیول پر 35 فیصد تک رہ جاتا ہے لیکن اصل مسئلہ پرائمری لیول پر بچوں کی شرح کے مقابلے میں مڈل، ہائی اور ہائیر سیکنڈری لیول کی شرح ہے جو کہ حکومت کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔

صوبے کی غیرسرکاری تنظیموں کا دعوی ہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں تقریباً اٹھارہ لاکھ بچے سکولوں میں داخل ہی نہیں۔ ان میں چونسٹھ فیصد لڑکیاں اور چھتیس فیصد لڑکے ہیں۔ جتنے بچے کبھی سکول نہیں گئے ان میں چھیاسٹھ فیصد لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کی شرح چونتیس فیصد ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ لڑکوں کے مقابلے میں دگنی لڑکیوں نے کبھی سکول میں قدم نہیں رکھا۔

صوبے بھر میں جتنے پرائمری اور سیکنڈری سکول ہیں ان میں ساٹھ فیصد سے زائد لڑکوں کے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں چالیس فیصد سے کچھ کم لڑکیوں کے ہیں۔ اعداد و شمار کے علاوہ کورونا کی وباء کی وجہ سے بھی پہلے کے مقابلے میں اب لڑکیوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button