فاٹا انضمام، ڈپٹی کمشنرز کے اختیارات: قانون کیا کہتا ہے؟
طیب محمد زئی
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ فاٹا انضمام کے وقت وفاقی اکائی کی حیثیت تبدیل کرنے کے لیے کی گئی 25ویں ترمیم پر سوالات اٹھائے گئے ہیں، پارلیمنٹ کی آئین میں ترمیم کے لیے کوئی حدود اور اختیارات متعین ہیں؟
فاٹا والوں کا موقف ہے کہ آئین نے ان کو الگ حیثیت کا جو تحفظ دیا تھا وہ ترمیم کے ذریعے واپس لے لیا گیا ہے، کیا پارلیمنٹ نے آئین کے تحت دیے گئے اختیارات واپس لیتے وقت فاٹا کی عوام سے رائے لی تھی؟ یہ ریمارکس گزشتہ روز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے دیئے۔
عدالت عظمی کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل تین رکنی بنچ نے فاٹا انضمام کے خلاف دائر مختلف درخواستوں کی سماعت کی۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل شمائل بٹ سمیت درخواست گزار ملک انور اللہ خان وغیرہ بھی پیش ہوئے۔
سپریم کورٹ میں فاٹا انضمام کے خلاف دائر درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ فاٹا کے عوام 25ویں آئینی ترمیم کی بنیاد پر انضمام کے اقدام پر عدم اعتماد اور غم و غصے کا شکار ہیں جس کی وجہ فاٹا کے عوام سے قائداعظم محمد علی جناح کا ایک وعدہ ہے جس کی وجہ سے انہوں نے رضاکارانہ طور پر پاکستان کا حصہ بننے پر اتفاق کیا تھا اور قائد اعظم نے کہا تھا کہ فاٹا کی الگ حیثیت ہے اور اس حیثیت کو تبدیل کرنے کے لیے فاٹا کے مشران اور عمائدین کو اعتماد لیا جائے گا لیکن گزشتہ وفاقی حکومت نے ترمیم لانے سے قبل ان سے مشورہ نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی کوئی جرگہ یا رائے شماری آئین کے آرٹیکل 247 (6) کے تحت کرائی گئی تھی۔
درخواست گزاروں کی جانب سے آئین میں درج وفاقی اکائیوں کی حیثیت تبدیل نہ کرنے کا سوال اٹھایا گیا ہے، کیس میں اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ کے آئین میں ترمیم پر کیا اختیارات اور حدود متعین ہیں؟
وفاق اور خیبر پختونخوا کی جانب سے سپریم کورٹ سے ایک اپیل میں استدعا کی گئی ہے کہ یہ درخواستیں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار کے تحت دائر نہیں کی جا سکتیں لہذا ان کو فوراً مسترد کر دیا جانا چاہیے۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ یہ تعین کرنا ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کس حد تک آئین میں ترامیم کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی علاقے کے انضمام سے وہاں کے رہائشیوں کے حقوق سلب ہوں تو وفاقی اکائیوں کا سوال اٹھ سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا فاٹا انضمام سے قبائلی علاقوں کے رہائشیوں کی صوبائی اور قومی اسمبلی میں نمائندگی متاثر ہوئی؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 25ویں آئینی ترمیم کے بعد بڑا مسئلہ ہی فاٹا کے نمائندوں کی قومی و صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کا تھا، فاٹا کے نمائندوں نے 25ویں آئینی ترمیم کی حمایت کی تھی۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ آئین کے تحت ایگزیکٹو آرڈر سے قبائلی علاقوں کو سیز کیا جا سکتا ہے، فاٹا کے انضمام سے قبل جرگے سے مشاورت بھی کی گئی تھی۔ بینچ کے رکن جسٹس محمد علی مظہر نے دریافت کیا کہ فاٹا کے انضمام سے اصل مسئلہ کیا ہے؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فاٹا والے کہہ چکے ان کی تہذیب خیبر پختونخوا سے مختلف ہے، فاٹا والوں کا موقف آ چکا ہے کہ آئین نے ان کو الگ حیثیت کا جو تحفظ دیا وہ ترمیم کے ذریعے واپس لے لیا گیا۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ نے آئین کے تحت دیے گئے اختیارات واپس لیتے وقت فاٹا کی عوام سے رائے لی تھی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کی دفعہ 257 میں درج ہے کہ اگر کشمیر آزاد ریاست کے طور پر رہنا چاہے تو کشمیریوں کی رائے لی جائے اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کشمیر کا مسئلہ اور بیک گراونڈ بالکل مختلف ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جمہوریت آئین کا بنیادی جزو ہے، 25ویں آئینی ترمیم کا مقصد قبائلی علاقوں میں جمہوریت لانا بتایا گیا۔
دورانِ سماعت خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کا پارلیمنٹ کی ترمیم کو کالعدم قرار دینا اختیارات سے تجاوز ہو گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان تمام سوالوں کے جوابات پر تفصیلی دلائل سنیں گے، کیس کو ماہ رمضان کے بعد لارجر بنچ میں سنا جائے گا۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت رمضان کے بعد تک ملتوی کر دی۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا کابینہ نے قبائلی اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کے اختیارات میں اضافہ کیا ہے جس سے ضم اضلاع کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو امن و امان کے قیام اور مقدمات کے اندارج کا قانونی اختیار مل گیا ہے۔ قانونی ماہرین نے صوبائی حکومت کے اس اقدام کو غیرآئینی اور ضم اضلاع کے عوام سے امتیازی سلوک کے مترادف قرار دیا اور فیصلہ کیا ہے کہ بہت جلد اس کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں رٹ دائر کریں گے۔
محکمہ داخلہ خیبر پختون خوا نے سمری منظوری کے لیے کابینہ کو ارسال کی تھی جس کی منظوری گزشتہ روز کابینہ نے دی تاہم حتمی منظوری کے لیے سرمی اسمبلی ارسال کی جائے گی۔
خیال رہے کہ پچھلے دنوں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی زیرصدارت اجلاس میں سمری منظوری کے بعد ضم قبائلی اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو قیام امن اور مقدمات کے اندراج کا قانونی اختیار دیا گیا تھا۔
اس حوالے سے معاون خصوصی اطلاعات بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ کابینہ نے ضم شدہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو جسٹس آف پیس کے اختیارات دینے کی منظوری دی ہے جس سے ضم اضلاع میں امن و امان یقینی بنانے میں مدد ملے گی، نئے اختیارات میں فوجداری قوانین کی دفعہ 22 کے تحت تمام ضم اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز جسٹس آف پیس مقرر کیے جائیں گے، پولیس جب کسی واقعے کا مقدمہ درج نہیں کرتی تھی تو متاثرہ شخص فوجداری قانون کے 22 اے اور 22 بی کے تحت پولیس کو مقدمہ درج کرنے کا حکم جاری کرتا اس طرح دوران تفتیش اگر کوئی تفتیشی افسر غلط تفتیش یا جانبدار تفتیش کرتا تو متاثرہ شخص تفتیشی افسر تبدیل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کرتا اور عدالت مذکورہ تفتیشی افسر کو تبدیل کرنے کے احکامات جاری کر دیتی۔ اب مذکورہ تمام اختیارات ضم اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو مل گئے ہیں اور اب ڈپٹی کمشنر کسی بھی واقعے کا پولیس کی جانب سے مقدمہ درج نہ کرنے پر پولیس حکام کو مقدمہ درج کرنے کے احکامات جاری کریں گے۔
صوبائی حکومت کے اس اقدام کو قانونی ماہرین نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں ضم اضلاع میں وکالت کرنے والے فرہاد اللہ آفریدی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر کو جسٹس آف پیس مقرر کرنا اور یا ڈپٹی کمشنر کو عدالتی اختیار دینا آئین کے آرٹیکلز 175، 4 اور 25 کے خلاف اقدام ہے، آئین کے آرٹیکل 175 میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ انتظامی افسر عدالتی اختیار ایک ساتھ استعمال نہیں کر سکتے، انتظامی افسر صرف انتظامی اختیارات استعمال کر سکتے ہیں، اس طرح حکومت کی جانب سے نئے ضم اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز کو کریمینل پروسیجر سی آر پی سی فوجداری قانون کے سیکشن 22 اے اور 22 بی کے اختیارات جوڈیشل افسران کی بجائے ڈپٹی کمشنرز کو دینا آئین کے آرٹیکلز 4 اور 25 کے بھی خلاف ہے کیونکہ آئین کی دونوں شقوں کے مطابق پاکستان کے تمام شہری برابر ہیں لیکن یہاں پر صوبائی حکومت نے ضم اضلاع کے لیے ایک قانون اور باقی صوبے کے لیے دوسرا قانون لا رہی ہے جو کہ امتیازی سلوک کے مترادف اقدام ہے، صوبائی حکومت ضم اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز کے مذکورہ اختیارات دینے کا فیصلہ واپس لے بصورت دیگر اس قانون کو بھی ایف سی آر اور دیگر قوانین کی طرح ہائیکورٹ میں چیلنج کریں گے۔