سیاستکالم

بھائیو! کیا عورت "میرا جسم آپ کی مرضی” کا نعرہ لگائے؟

انصار یوسفزئی

پاکستانی معاشرے میں عورت کی آزادی کا تصور کرنے سے بہت پہلے یہ سوچنا ہو گا کہ پاکستان میں ایک مرد کتنا آزاد ہے؟ یہ سوچنا ہو گا کہ کیا ہمارے ہاں مرد کو وہ آزادی حاصل ہے جو مہذب اقوام میں کسی مرد کو حاصل ہوتی ہے؟ آپ صرف یہ دیکھیں کہ بلوچستان جو پاکستان کا ایک ایسا صوبہ ہے، وہاں کی خواتین اپنے مردوں کی آزادی کیلے اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دیتی ہیں اور نام نہاد "ریاستِ مدینہ” کے علمبرداروں کو جھنجوڑتی ہیں کہ ہمارے مردوں کو آزادی اور  بنیادی انسانی حقوق دو لیکن ایوانوں میں بیٹھے ہمارے ان غافل حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، یا شائد ہمارے حکمرانوں کو خود یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ ہم کتنے آزاد ہیں؟

پاکستانی معاشرے میں ہر فرد اپنی اپنی بساط کے مطابق یرغمال اور قیدی ہے، پھر چاہے وہ عام پاکستانی ہے یا وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان شخص، ایسے میں یہ سوال تو اٹھتا ہوگا کہ پاکستان میں ایک عام مرد سے لے کر وزیر اعظم تک سب کے سب قیدی اور یرغمال ہیں، تو ایک عام پاکستانی عورت کب اور کیسے آزاد ہو گی؟

یہ سوال تو اپنی جگہ موجود ہے لیکن اب عورت کی آزادی کا مفہوم کیا ہے؟ یہ معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے کیوں کہ لوگوں نے اس کو اپنی اپنی مرضی سے پرکھا ہے۔ اس وضاحت کی طرف میں بعد میں آتا ہوں پہلے آپ یہ ملاحظہ کیجئے کہ جب ہماری عورتیں اپنی آزادی کیلے تگ و دو شروع کرتی ہیں تو مجھے اس وقت سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے وہ مرد حضرات جو خود ایک قیدی کی طرح اس ملک میں رہ رہے ہیں، وہ عورت کی آزادی کو چیلنج کرنے ان کے سامنے کیسے کھڑے ہو جاتے ہیں؟ عورت کی آزادی کو بیرونی ایجنڈا قرار دینے سمیت طرح طرح کے الزامات اس ملک کی بہادر خواتین پر لگاتے ہیں، میں ان لوگوں سے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ عورت نے 2018 میں ہمت دکھائی ہے، وہ باہر نکلی ہے ان قوتوں کے خلاف جنہوں نے پاکستانی معاشرے میں عورت کا استحصال کیا ہے، جنہوں نے عورت پر طرح طرح کے ظلم اور جبر کئے، جنہوں نے ہر محاذ پر عورت کو اس کی خواہش سے محروم کئے رکھا ہے۔

عورت نے ہمت کی ہے اور نکلی ہے ان قوتوں کے خلاف جنہوں نے عورت کا قتل عام کیا ہے، وہ نکلی ہے ان ظالموں کے خلاف جنہوں نے اس کا ریپ کیا ہے، وہ نکلی ہے اس قوت کے خلاف جس نے اس کو اپنے ہی جائیداد سے محروم کر رکھا ہے، وہ نکلی ہے اس قوت کے خلاف جو عورت کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ وہ بہادر عورت نکلی ہے ہر اس قوت کے خلاف جس نے ایک عورت کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا ہے۔ آپ مرد ہمت کریں جو عورت کی آزادی کے خلاف تیس مار خان بنے پھرتے ہیں، آپ خود ایک قیدی کی طرح اس ملک میں رہ رہے ہیں، آپ اپنی آزادی کیلے ایک مارچ تو کر کے دکھائیں نا؟ عورت کی حرکات و سکنات پر انگلی اٹھانے والے نام نہاد مرد کو پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ میں کتنا پارسا اور پاک باز ہوں، اسی طرح عورت کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے ایک مرد کو اپنے اندر جھانکنا ہو گا کہ میں کتنا آزاد ہوں، کہ کسی عورت کی آزادی کیلے اٹھنے والی تحریک کو چیلنج کرتا ہوں۔

پاکستان میں عورت کی آزادی کی تحریک (عورت آزادی مارچ) 2018 میں شروع ہوئی۔ کراچی سے شروع ہونے والی یہ تحریک نسواں پورے ملک میں مقبول ہوئی۔ ہر طرح سے عورت کا استحصال کرنے والے سکہ بند دانشوروں نے اس تحریک کو غیراخلاقی قرار دے کر عورت ذات کیلے اپنی اصلیت واضح کر دی کہ وہ اصل میں کون لوگ ہیں؟ اس سال یعنی 2022 میں عورت آزادی مارچ تو اپنے ٹائم ٹیبل کے مطابق بڑے زور و شور سے منعقد ہو گا لیکن مارچ سے اس بار اسلام آباد میں عورت آزادی جلسہ منعقد ہوا اور مارچ سے پہلے مارچ کے متظمین کی جانب سے باقاعدہ اپنا چارٹر آف ڈیمانڈز پیش کیا گیا۔

اس چارٹر آف ڈیمانڈز میں کوئی ایک مطالبہ بھی ایسا نہیں ہے جس کی وجہ سے عورت کی آزادی کیلے اٹھنے والی تحریک کو غیراخلاقی قرار دے کر اس کی مخالفت کی جائے، جو لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں انہیں ٹھنڈے دماغ سے سوچنا ہو گا کہ ہم کہاں پر غلطی کر رہے ہیں، اور جو لوگ ہماری بہادر خواتین کی اس تحریک کو غیراخلاقی سمجھتے ہیں انہیں بھی اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہو گا کہ ہم خود کتنے بااخلاق اور تہذیب یافتہ ہیں، وہ خود بخود کلیئر ہو جائیں گے۔

اب میں عورت کی آزادی کے مفہوم کی طرف آتا ہوں، عورت کی آزادی کا مطلب وہ ہرگز نہیں ہے جو آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ عورت مغرب جیسی آزادی چاہتی ہے۔ وہ کھلے عام نعوذباللہ زنا کرنا چاہتی ہے، وہ اپنے شوہر کو چھوڑ کر اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رات گزارنا چاہتی ہے، یہ آپ کی محدود سوچ کی بھرپور عکاسی کرتا ہے سو آپ اپنی محدود سوچ اپنے پاس رکھیں اس کو دوسروں پر مسلط نا کیجئے۔

عورت کی آزادی کا مطلب بڑا واضح ہے کہ اس کو وہ تمام بنیادی اور معاشرتی حقوق میسر آئیں جس سے آج تک ہمارے معاشرے میں ایک عورت کو دور رکھا گیا ہے۔ وہ تعلیم حاصل کریں اپنی مرضی سے، وہ نکاح کریں اپنی مرضی سے، بہن کو گھر میں اس کے بھائی کی طرح ٹریٹ کیا جائے، عورت کو جائیداد میں اپنا پورا حصہ دیا جائے جو ہمارے معاشرے میں ایک قبیح فعل سمجھا جاتا ہے۔

عورت کی آزادی یہ ہے کہ وہ راستے پر اکیلی جا رہی ہو تو وہ محفوظ ہو کوئی اس کا ریپ نا کرے، عورت کی آزادی یہ ہے کہ اس کو مرد کے برابر اجرت ملے، عورت کی آزادی یہ ہے کہ اس کو بچوں کی مشین نا بنایا جائے جو کہ ہمارے ہاں اس معاشرے میں عام ہے۔ المختصر یہ کہ عورت کی آزادی وہ ہے جو وہ چاہتی ہے اور جو قابل قبول بھی ہے، وہ نہیں جو آپ کی سوچ ہے۔

دوسری بات یہ کہ کچھ لوگوں کو شکوہ ہے کہ عورت مرد کی برابری کی بات کرتی ہے، عورت نے کبھی بھی مرد کی برابری کی بات نہیں کی اس نے ہمیشہ اپنے حصے کی بات کی ہے کہ جو میرا حصہ ہے مجھے وہ دیجئے۔ کچھ لوگوں کو شکوہ ہے کہ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ عورت "میرا جسم میری مرضی” کا نعرہ کیوں لگاتی ہے؟ تو بھائیو! کیا عورت "میرا جسم آپ کی مرضی” کا نعرہ لگائے؟ یہ تو عام مشاہدے کی بات ہے کہ جس کا جسم ہے اس پر اس کی ہی مرضی ہو گی تو پھر عورت کے جسم پر عورت ہی کی مرضی ہو گی اور "میرا جسم میری مرضی” میں یہی سب چیزیں شامل ہیں جو میں نے اوپر بیان کیں اس میں ایسی کوئی خلاف قانون و خلاف اقدار بات نہیں۔

اب عورت آزاد کب ہو گی؟ ایک ایسی آزادی جس کے بعد غلامی نہ ہو۔ ایک ایسی آزادی جس کے بعد کوئی شخص عورت ذات کو بطور پراپرٹی استعمال نہ کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری بہادر خواتین نے جو "عورت آزادی مارچ” شروع کی ہے انشاءاللّه وہ وقت دور نہیں جب ہماری عورتوں کو حقیقی آزادی نصیب ہو گی، ایسی آزادی جس کے بعد کوئی مرد کسی عورت کا استحصال، چاہے وہ استحصال جنسی ہو یا مالی ہو، اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں پائے گا۔

میں اس بات پر بھی حق بجانب ہوں کہ عورت آزادی مارچ سے اب تک کم از کم یہ تاثر تو ابھر کر سامنے آیا ہے کہ عورت بھی کوئی مخلوق ہے، اس کی بھی کوئی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہے۔ یہ قافلہ جو 2018 میں نکلا ہے 2022 میں بڑھتا جا رہا ہے اور وہ دن قریب ہے کہ پاکستان میں ایک عورت کو وہ تمام حقوق ملیں گی جس کیلئے اس نے جدوجہد شروع کی ہے۔ عورت کو تمام بنیادی حقوق ملنے سے یہ معاشرہ ایک آزاد معاشرہ تصور ہو گا کیوں کہ عورت آزاد تو ہی سماج آزاد، عورت آزادی مارچ زندہ باد!

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button