بلاگزسیاست

میری کنپٹی پر طالب کی بندوق کے وار کا نشان افغانستان پر طالبان کے قبضے کی یاد دلاتا رہے گا

عارف حیات

سرحد پر افغانستان سائیڈ کے تنگ راستے میں جا رہا تھا کہ اچانک آواز سنی ”چس چس۔۔۔ چسس چسس۔۔ چرتہ زی”، (کہاں جا رہے ہو)، طالبان انٹیلی جنس اہلکار نے دھیمی آواز میں کہا۔ یہ سن کر میرے ہاتھ پاؤں سُن ہو گئے اور ہکلاتے ہوئے کہا پاکستان جا رہا ہوں۔ بندوق کی نالی سامنے کرتے ہوئے طالب نے کہا کہ ”میں زندہ چھوڑ دوں تو پاکستان جاؤ گے۔” اس مقام پر صرف آواز نہیں، میرا کلیجہ، دل، گردہ اور جگر بھی بیٹھ گیا تھا۔ (گذشتہ سے پیوستہ)

‏‎طالبان انٹیلی جنس کا سربراہ، جس کی عمر بمشکل چوبیس سال تھی، کہنے لگا، ”آپ ثابت کریں کہ آپ رپورٹر ہیں، صرف رپورنٹگ کے لئے کابل گئے تھے اور ذبیح اللہ مجاہد سے ملنے گئے تھے تو ہم آپ کو چھوڑ دیں گے۔” اس نے مزید کہا کہ ہمیں کابل سے اطلاعات ملی ہیں کہ کسی بھی صحافی کو مکمل تفصیلات جانے بغیر افغانستان سے باہر نہیں جانے دیا جاۓ گا۔” میں نے افغانستان کے محکمہ اطلاعات کی جانب سے جاری کردہ اتھارٹی لیٹر دکھایا۔ اس لیٹر میں دیئے گئے موبائل نمبر پر وہ مسلسل فون ملانے لگا، بائیں ہاتھ سے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ دو گھنٹے مجھے وہاں بٹھایا گیا۔اس وقت مجھے پشاور میں صحافی دوست انور زیب سے رابطہ بس آخری خواہش لگ رہی تھی۔

طالبان انٹیلی جنس سربراہ کے پاس واپس آیا۔ میری بات سُنے بغیر اس نے کہا کہ اپنے آپ کو دس منٹ میں صحافی ثابت کر دو ورنہ کنٹینر میں بند کر دیں گے اور جلال آباد واپس بھیج دیں گے۔ یہ سن کر میری رگ و پے میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ قریب منی ایکسچینج والے بندے جو اپنے موبائل میں مگن تھا، میں اس کے قریب گیا اور اُسے اپنی مجبوری بتائی، کچھ دیر سننے کے بعد اس نے موبائل میں فیس بُک اوپن کر کے میرے حوالے کر دیا۔

بھلا ہو صحافی کامران علی کا جس نے میرے افغانستان کی ویڈیوز اور ذبیح اللہ مجاہد سے نیوز کانفرنس میں پوچھے گئے سوالات کو خاص ترتیب کے ساتھ ایڈٹ کیا تھا، سینئر صحافی لحاظ علی نے بھی بارہا مجھے اپنے ٹی وی شو میں تجزیہ کے لئے بلایا تھا۔ یہ تمام ویڈیوز میرے فیس بُک پیج پر پوسٹ تھیں، بلاتعطل میں نے وہ سب ان کو دکھایا جس کے بعد ان کو میرے صحافی ہونے کا یقین آ گیا اور مجھے چھوڑ دیا گیا۔

میرے ساتھ دوسرے طالب کو بھیجا گیا اور میرا بیگ اس کے حوالے کیا گیا جس پر میں بالکل راضی نہیں تھا مگر مجبوراً چپ رہا۔ اب جو طالب میرے ساتھ میرا بیگ لے کر جا رہا تھا اس کے پاس وائرلیس سیٹ بھی موجود تھا جس نے میری ٹینشن مزید بڑھا دی، مجھے لگا کہ پہلے سے یہاں کی طالبان انٹیلی جنس نے کابل میرے بارے معلومات لینے کے لئے رابطے کیے ہیں مگر کوئی جواب نہیں ملا اور اگر ابھی ان کو جوابی اطلاع ملی تو میرے ساتھ موجود طالب کو اسی وائرلیس سے خبر دی جائے گی کہ مجھے بارڈر کراس کرنے سے پہلے واپس کیا جائے۔ اپنے ہی خیالات میں گم طالب کے ہمراہ تھا کہ سامنے بارڈر نظر آئی اور ضلع خیبر میں پشاور کی ہوا محسوس ہونے لگی۔

پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے ہی مجھے افغانستان سے زندہ نکالنے والے ذرائع نے رابطہ کیا اور دوسری زندگی کی مبارکباد دی۔ جیسے ہی پشاور پہنچا تو صحافی دوست ظفر اقبال اور عثمان دانش کو پہلے سے اپنا منتظر پایا۔ انور زیب نے فوری طور پر نیا موبائل میرے حوالے کیا۔ اس کے بعد کئی دنوں تک نیند میں اچانک ہڑبڑا کر اٹھنا اور یہاں سڑکوں پر بھی فوج یا پولیس موبائل دیکھ کر ڈر جانا معمول رہا۔ نئے موبائل فون کی سیٹنگ کر لی تو بھائی جیسے دوست انور علی اور شہزاد محمود کے گالیوں بھرے پیغامات سب سے پہلے موصول ہوئے کہ پشاور سے نکلنے کا سوچا بھی کیسے؟

ٹرائبل نیوز نیٹ ورک (ٹی این این) کے نیوز ایڈیٹر افتخار خان نے میری صحت دریافت کرنے کے لئے رابطہ کیا۔ جب انہیں میں کچھ کام کرنے کے قابل نظر آیا تو فوراً افغانستان کی صورتحال پر لمبی قسط وار تحریر کی اسائنمنٹ دے دی، کہتے رہے زندہ بچ کر نکلے ہو تو اب کچھ کام بھی کر لو۔

اس تمام تر صورتحال کے دوران میں نے اپنے والدین کو شک بھی ہونے نہیں دیا کہ کن حالات سے گزر کر دوبارہ زندگی ملی ہے۔ ان کو سمجھانے کی ہمت نہیں تھی کہ فرائض کی انجام دہی میں ایسا پاگل پن کرنا پڑتا ہے۔

واپس آنے کے چند دن بعد ذبیح اللہ مجاہد کے معاون نے رابطہ کیا اور میرے ساتھ ہونے والے سلوک پر معذرت کی اور دوبارہ افغانستان آنے کی دعوت بھی دی۔ ان کی معذرت اس شرط پر قبول کر لی کہ مستقبل میں صحافیوں کے ساتھ ایسا برتاؤ ہرگز  نہ کیا جائے۔

میرے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر بیشتر لوگوں نے یورپ میں اسائلم لینے میں ہر طرح کی مدد کرنے کی پیشکش کی مگر مقبوضہ افغانستان کو سہارا بنا کر ضمیر ایسا قدم اُٹھانے کو نہ مانا۔

‏‎جسم میں شدید درد محسوس ہوتا تھا جس کے باعث کچھ دن تک تو چین کی نیند نصیب نہ ہو سکی۔ موت کے منہ سے نکل کر واپس آنے کے بعد احساسات بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ میں ایک بات سمجھ گیا کہ دوران صحافت سخت حالات کو “پارٹ آف دی گیم” قرار دینا ہی درست ہے، واویلا نہیں مچانا چاہیے۔

‏‎صحافی کے لئے ان تمام بڑے واقعات کو لائیو رپورٹ کرنا ضروری ہوتا ہے۔  اس طرح کی خبر کے لئے جائے وقوعہ پر جانا ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان میں بیٹھ کر افغانستان پر رپورٹنگ کرنا صرف مبالغہ آرائی ہے۔ اس طرح کے واقعات میں رپورٹنگ کے مواقع بہت کم ملتے ہیں مگر خود مواقع ڈھونڈ نکالنا ہی صحافی کی اصل قابلیت ہے۔

‏‎واپسی پر تقریباً ہر کسی نے میری کنپٹی پر نظر آنے والے داغ کے بارے میں پوچھا جو کہ طالب کی بندوق سے مارے جانے کے سبب تھا۔ یہ نشان ہٹانے کے لئے علاج کا سوچا مگر ایک عزیز از جان دوست کی ایک بات یاد آ گئی کہ جنگجو کے جسم اور چہرے پر جنگ کے دوران دشمن کے وار سے بنے نشان اس کی بدصورتی نہیں بلکہ یہ اس کے لئے تمغے ہیں جنہیں وہ فخر سے سجائے رکھتا ہے۔ یہ نشان افغانستان پر طالبان کے قبضے کی یاد دلاتا رہے گا۔ (ختم شد)

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button