افغانستانسیاست

افغان طالبان کے ہاتھوں سابق افغان سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت، امریکہ نے تحقیقات کا مطالبہ کر دیا

امریکہ اور یورپ سمیت دیگر ممالک نے افغان طالبان کے ہاتھوں افغان سکیورٹی فورسز کے سابق اہلکاروں کی مبینہ ہلاکتوں اور جبری گمشدگیوں کی مذمت کرتے ہوئے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اتوار کو امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ، آسٹریلیا، جاپان اور دیگر ممالک نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ہمیں ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کی رپورٹس پر تشویش ہے۔

یہ بیان امریکی محکمہ خارجہ نے جاری کیا جس میں ماورائے عدالت قتل اور جبرہ گمشدگیوں پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مبینہ کارروائیاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں اور یہ طالبان کی جانب سے عام معافی کے اعلان کے برعکس ہیں۔

ان ممالک نے افغانستان کے نئے حکمرانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ عام معافی کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے اور شفاف طریقے سے رپورٹ ہوئے کیسز کی تحقیقات ہونی چاہئیں، ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے، طالبان کو ان کے اقدامات کی بنیاد پر پرکھا جائے گا۔

رواں ہفتے کے اوائل میں ہیومن رائٹس واچ کی ایک نئی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ طالبان نے افغان سکیورٹی فورسز کے سو سے زیادہ سابق اہلکاروں کو ہلاک اور جبری طور پر لاپتہ کیا ہے جبکہ سابق سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے خاندانوں کو بھی نشانہ بنایا۔

ہیومن رائٹس واچ نے کہا تھا کہ عام معافی کے اعلان کے باوجود سابق سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔طالبان نے اگست میں افغانستان کا کنٹرول حاصل کیا اور امریکی حمایت یافتہ حکومت اور ملک کی فوج پسپا ہو گئی تھی۔

رواں ہفتے واشنگٹن نے طالبان حکام کے ساتھ مذاکرات کیے تھے۔ مذاکرات میں امریکہ نے طالبان پر زور دیا تھا کہ خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم تک رسائی دی جائے۔ امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔

خیال رہے کہ وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمو دقریشی نے گذشتہ روز کہا ہے کہ افغانستان کے مسئلے پر 19 دسمبر کو او آئی سی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس پاکستان کی میزبانی میں منعقد ہو رہی ہے جس کا مقصد افغانستان میں کسی طرح کا انسانی المیہ رونما ہونے سے قبل اسے روکنے کیلئے پیشرفت کرنا ہے، اگر کسی طرح کا انسانی المیہ رونما ہوتا ہے تو اس سے صرف افغانستان متاثر نہیں ہوگا بلکہ اس کے اثرات ہمسایہ ممالک اور دنیا کے دیگر ممالک پر بھی مرتب ہوں گے۔

اس سے قبل 22 دسمبر کو نیٹو کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ لیٹویا میں افغان مشن سے سیکھنے والے نتائج پر مرتب رپورٹ پر بحث کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ نیٹو عسکری اتحاد 18 سال تک افغانستان میں موجود رہا۔

میٹنگ سے قبل نیٹو کے سیکرٹری جنرل ڑینس اسٹولٹن برگ کا کہنا تھا کہ نیٹو افغانستان میں مشن کریپ یا اپنے اصل اہداف سے ہٹ جانے کا شکار ہوا اور عسکری اتحاد کو افغانستان کی تعمیر نو میں دھکیل دیا گیا تھا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button