سیاست

پشاور سے کابل تک کا کٹھن سفر اور طالبان کی حکومت میں رپورٹنگ کی مشکلات، فرزانہ علی کی کہانی

اسماء گل

خیبر پختونخوا کی خاتون صحافی فرزانہ علی جنہوں موجودہ حالات کے دوران افغانستان میں رپورٹنگ کی ہے کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کافی حد تک بدل گیا ہے۔

ٹی این این کے ساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران خیبرپختونخوا کی پہلی خاتون بیورو چیف نے اپنے تجربات کی بنیاد پرکہا کہ وہ پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں افغانستان میں امن کونسل کی تشکیل کے موقع پر اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ صحافیوں کے وفد میں شریک رہی اور افغانستان کے حکومتی ایوانوں اور رہداریوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ دوسری مرتبہ افغان پاکستان ایکسچنج پروگرام میں گئی اس موقع پر افغانستان کے درالحکومت کابل، خوبصورت پنج شیر شہر کے نظارے دیکھے لیکن اس دفعہ افغانستان جانے کا تجربہ ماضی کی نسبت بالکل مختلف تھا، وہ اسلئے کہ پہلے وہاں خواتین کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے افغانستان جس انداز سے بہتری کی جانب گامزن تھا شاید وہ سلسلہ اب رک گیا ہے، اس وقت خواتین بہت سے شعبوں میں فرائض سرانجام دیں رہی تھیں، پڑے لکھے نوجوان اداروں میں اپنا کردار ادا کررہے تھے، اس وقت کابل میں اتحادی افواج کی موجودگی کے باعث وہاں سیکیورٹی سخت ضرورت تھی لیکن وہاں معمولات زندگی بحال تھیں لیکن اب سب کچھ بدل گیا ہے۔

 

ان کا کہنا ہے کہ چند پہلےجب تیسری بار بغرض رپورٹنگ کرنے گئی تو کابل شہر کو یکسر مختلف نظر آیا۔ کابل شہر میں خواتین کی تعداد نہ ہونے کی برابر تھی کابل اور مضافات میں 30 سے 40 سال عمر کے مسلح طالبان جگہ جگہ کھڑے اور گشت کرتے نظر آئے۔

پشاور سے افغانستان تک اپنے کھٹن سفر کے حوالے سے بتایا کہ پشاور سے کابل براستہ جلال آباد سفر کیا، پہلے طے یہ کیا تھا کہ جلال آباد سے افغانستان کی بدلتی صورت کی کوریج کرکے واپسی کرینگے لیکن جلال آباد کے راستے میں مارکو کے مقام پر طالبان نے روک کر تفتیش شروع کی ان کو یہ لگا شاید ہم اجازت لئے بغیر آگے جا رہے ہیں ان کی جانب سے کچھ دیر گفت و شنید کے بعد طالبان وہاں سے قریب علاقے کے ایک حجرہ لے گئے جہاں پر ہم نے دیکھا کہ جرگہ ہو رہا تھا، انہوں نے کافی دیر تک ہمیں وہاں رکھا۔ پھر ایک امیر صاحب کے پاس لے گئے اور تقریباً تین ساڑھے تین گھنٹے وہاں پر رہے اس دوران وہ میرے ساتھ موجود دوسرے ساتھی سے بار بار یہی کہ رہے تھے کہ آپ یہاں کیوں آئے ہیں جس پر ساتھی رپورٹر نے ان کو بتایا کہ ہم پاسپورٹ پر ویزا لگا کے آئے ہیں اور صحافی ہے آگے رپورٹنگ کے لئے جا رہے ہیں۔

ہم نے راستے میں ایک دو جگہ پر کوریج کی جس پر انہوں نے کہا کہ آٌپ لوگ بغیر اجازت کے کیوں کوریج کر رہے تھے، تیسری بات یہ کہ آپ ایک عورت کیسے غیر شرعی طور پر ایک نا محرم عورت کو گھوم رہے ہیں جس پر ان سے بحث ایک عجب سی بات تھی۔ اس کے بعد پہاڑی پر موجود ایک جگہ پر لے گئے جہاں پر بتایا گیا کہ یہ پولیس سٹیشن ہے وہاں سے طالبان نے جلال آباد میں رابطہ کرکے بتایا کہ یہاں پر دو مرد ایک خاتون موجود ہے اور کہتے ہیں کہ وہ صحافی ہیں اور آگے جانا چاہتے ہیں پھر ہمارے ادارے کے کارڈز اور دیگر دستاویز چیک کرکے چھوڑا گیا۔ ہم سے پہلے جانے والے صحافیوں کی غیر تسلی بخش تجربے کے بعد ہم نے بھی آپس میں طے کیا کہ جلال آباد غیرمحفوظ ہونے کے پیش نظر جلال آباد میں ٹھہرنے کے بجائے ہم کابل چلے گئے۔

ان کو نا صرف جانے میں دوشواری ہوئی بلکہ ان کے مطابق وہاں پر اپنی صحافتی ڈیوٹی سر انجام دینا بھی کافی مشکل تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس دفعہ پہلی طرح رپورٹنگ کرنا آسان نہیں تھا، کابل میں رہنے والوں کو یہ مسئلہ ہمیشہ رہا ہے کہ پاکستانی صحافی ہونے کے ناطے شاید محبتیں تو اس قدر کہی تھی ہی نہیں جو معاملات ہمیشہ دونوں ممالک کے درمیان رہی ہے لیکن اس حد تک نفرت نہیں تھی جو اب کے بار ہم نے دیکھی۔ میں نے اپنی رپورٹنگ میں ہمیشہ انسانی حقوق پر فوکس کیا ‘ میں نے ایسے موضوعات پر فوکس کیا جس میں عام لوگوں کی بات ہوتی تھی چاہے وہ ایسے مہاجر تھے جو مہاجر پاکستان میں یا کسی ملک میں بھی جا سکتے تھے یا جانے کے لئے کوئی معاملات ہو رہے تو وہ کیا کر رہے ہیں یا وہ بے گھر افراد تھے جو دیگر صوبوں سے کابل میں خیموں میں رہ رہے تھے وہ تاجر تھے جن کی تجارت متاثر ہوئی وہ طالب علم تھے جن کے تعلیمی ادارے بند تھے’

اگر چہ جب وہ کابل پہنچ تو اس دن پرائمری تک تعلیمی ادارے کھول گئے تھے اور اب ہائیر سیکینڈری تک تعلیمی ادارے کھولنے اعلانات ہو رہے ہیں لیکن یونیورسٹیوں کا تعلیمی ںظام اب بھی تک بحال نہ ہوسکا۔

انہوں نے بتایا کہ کام اتنا مشکل تھا کہ رپورٹنگ کے دوران کیمرے کے استعمال پر سختی سے پابندی تھی۔ ٹی وی رپورٹنگ کے لئے درکار انٹرویوز، فوٹیجز، ایز لائیو کے لئے موبائل کا استعمال کیا کرتے تھے کیونکہ ہم سے پہلے جانے والے صحافیوں اور ہمارے آنے کے بعد صحافیوں کو کوریج سے روکا گیا اور چند ایک ناخوشگوار واقعات بھی پاکستانی صحافیوں کے ساتھ رونما ہوئے جس کی بنیاد پر ہم کہ سکتے ہیں کہ صحافتی آزادی، (Freedom of Expression ) اور آزادی اظہار رائے ( Freedom of Speech) پر بہت سخت پابندی تھی جس کی وجہ سے لوگوں میں بھی خوف تھا اور وہ میڈیا کے ساتھ بات کرنے سے کتراتے تھے۔

جب ان سے پوچھا گیا کے پاکستان کے بڑے بڑے صحافیوں پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ انہوں نے طالبان کے حق میں رپورٹنگ کی جو صحافت کے اصولوں کے خلاف ہے تو انہوں نے بتایا کہ صحافیوں کی رپورٹنگ پر تنقید لوگوں کا حق ہے میں اس بارے میں کوئی رائے دینے سے گریز کرتی ہوں میں نے خود وہاں جاکر رپورٹنگ کی شاید میری رپورٹنگ پر بھی بہت سے لوگ تنقید کریں لیکن صحافی اور بحثیت رپورٹر ہمارا کام ہے رپورٹنگ کرنا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں مثبت تبدیلیاں آئی ہیں وہ یہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ ملک میں امن آگیا ہے اور ساتھ ہی وہ یہ کہتے تھے کہ امن اسلئے آگیا ہے کہ جن سے ہمیں خوف تھا اب وہ لوگ حکومت میں آگئے ہیں تو امن بحالی بھی ان کی ذمہ داری ہے اور جو پہلے لوٹ مار اور دھماکے ہورے تھے اب وہ نہیں ہورہے۔ افغانستان کے اپنے لوگوں کا سب سے بڑا خدشہ یہ بھی تھا کہ جو گزشتہ بیس سالوں میں وہاں مختلف شعبوں میں بہتری آئی ہے وہ سب کچھ الٹ نہ ہو جائے ان کی محنت رائیگاں نہ چلی جائے۔

فرزانہ نے بتایا کہ افغانستان سے پاکستانی ٹی وی چینل کے لئے رپورٹنگ کرنا بہت مشکل تھا ایک طرف تو اپنی چینل کی پالیسی کو ساتھ لے کے چلنا پڑتا ہے اور دوسری جانب طالبان کا ڈر تھا لیکن پھر بھی انہوں نے کوشش کی کہ لوگوں کے جو بنیادی مسائل ہیں اس کو میڈیا پر دکھائیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button