پاکستان میں ہر چوتھا بچہ بھوکا اور سکول سے باہر!

محراب شاہ آفریدی
ملکی ترقی، بچوں کی صحت، غذائیت اور معیاری تعلیم کے فروغ کے لیے حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ خاندانی منصوبہ سازی کے لیے بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ یہ متفقہ مؤقف اسلام آباد میں منعقدہ میڈیا کولیشن میٹنگ کے دوران سامنے آیا، جس کا اہتمام پاپولیشن کونسل نے یو این ایف پی اے کے تعاون سے کیا تھا۔
میٹنگ میں شریک میڈیا نمائندوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ملک کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے بچوں کی بقا، ذہنی نشوونما، غذائی قلت کے خاتمے، مساوی تعلیمی مواقع اور بجٹ سازی میں بچوں کی ضروریات کو ترجیح دے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ والدین کو اپنے وسائل کے مطابق خاندان کی منصوبہ بندی کا اختیار دینا بنیادی اہمیت رکھتا ہے تاکہ غیر ارادی اور کم وقفے والے حمل سے بچا جا سکے۔
میڈیا کولیشن نے مؤقف اختیار کیا کہ خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک مؤثر اور آسان رسائی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ ناگزیر ہے۔
پاپولیشن کونسل کے سینئر ڈائریکٹر ڈاکٹر علی میر نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ پائیدار ترقی کے حصول میں میڈیا کا کردار کلیدی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ، "خاندانی منصوبہ سازی کا مقصد صرف آبادی کو کنٹرول کرنا نہیں بلکہ ہر بچے کو زندہ رکھنا، صحت مند بنانا اور معیاری تعلیم دلوانا ہے تاکہ وہ ملک و قوم کی ترقی میں مؤثر کردار ادا کر سکے۔”
ڈاکٹر علی میر نے اس بات پر زور دیا کہ اگر صحت، تعلیم اور خاندانی منصوبہ سازی کے شعبوں میں بجٹ میں اضافہ کیا جائے تو یہ اقدام نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلوں کی فلاح کے لیے سنگ میل ثابت ہوگا۔
میٹنگ کے دوران پاپولیشن کونسل کے ڈپٹی منیجر اکرام الاحد نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں روزانہ تقریباً 675 نوزائیدہ بچوں کی اموات ہوتی ہیں، جو کہ دو مسافر طیاروں کے حادثے کے برابر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اتنے بڑے انسانی المیے کے باوجود یہ مسئلہ میڈیا میں مناسب توجہ حاصل نہیں کر رہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں 2 کروڑ 60 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں، جو دنیا میں آؤٹ آف سکول چلڈرن کی دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں غذائی قلت کی شرح تشویشناک ہے اور 40 فیصد بچوں کا قد ان کی عمر کے مطابق کم ہے، جو ان کی ذہنی صلاحیتوں پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے۔
اکرام الاحد کے مطابق پاکستانی بچے اپنی مکمل ذہنی صلاحیت کا صرف 41 فیصد استعمال کر پاتے ہیں۔ پاکستان صحت اور تعلیم کے شعبوں میں جی ڈی پی کا عالمی معیار کے مطابق بجٹ مختص نہیں کرتا اور اس معاملے میں ہم نہ صرف عالمی معیار بلکہ بھارت اور ایران جیسے پڑوسی ممالک سے بھی پیچھے ہیں۔
انہوں نے پاپولیشن کونسل کی رپورٹ "Pakistan @2050” کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر 2030 تک آبادی میں اضافے کی شرح کو 1.2 فیصد تک محدود کیا جائے تو 2050 تک جی ڈی پی میں 1.7 فیصد پوائنٹس کا اضافہ اور فی کس آمدنی میں دگنا اضافہ ممکن ہے۔ اسی طرح سکول سے باہر بچوں کی تعداد میں بھی 30 فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔
میٹنگ میں شریک صحافیوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ خاندانی منصوبہ بندی تمام ترقیاتی اشاریوں میں بہتری کے لیے محرک کا کردار ادا کرتی ہے۔ میڈیا کولیشن ممبران نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جدید اور طویل مدتی مانع حمل طریقوں کی رسائی میں اضافہ کیا جائے، مانع حمل ادویات سے ٹیکس کا خاتمہ کیا جائے اور آئین کے آرٹیکل 25-A کے تحت مفت و لازمی تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین اور بچوں کی صحت، تعلیم اور غذائی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بجٹ سازی کی جائے تاکہ ایک صحت مند، تعلیم یافتہ اور خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکے۔