جاپان میں پاکستانی ہنر مندوں کی بڑھتی ہوئی مانگ — ایک موقع جو پاکستان کو ضائع نہیں کرنا چاہیئے

تحریر: سید نذیر
جاپان میں پاکستانی افرادی قوت کی بڑھتی ہوئی طلب اب محض ایک عارضی رجحان نہیں، بلکہ ایک مستحکم معاشی حقیقت بنتی جا رہی ہے۔ حالیہ “پاکستان-جاپان ہیومن ریسورس اسٹیک ہولڈرز میٹنگ”، جو جاپانی سفیر جناب اکاماتسو شوئیچی کی میزبانی میں اسلام آباد میں منعقد ہوئی، اس بدلتی ہوئی حقیقت کا واضح اشارہ ہے۔ پاکستان کے لیے یہ لمحہ غور و فکر کا بھی ہے اور ایک عملی موقع بھی، جسے اگر سنجیدگی سے نہ اپنایا گیا تو ہم ایک بڑے معاشی اور انسانی سرمائے کے فائدے سے محروم ہو سکتے ہیں۔
جاپان کی معیشت اس وقت آبادی کے عمر رسیدہ ہونے اور ورک فورس کی کمی جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ ان حالات میں جاپان اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بیرونی ہنر مند افراد کی جانب دیکھ رہا ہے، جن میں پاکستانی نوجوان ایک قابل اعتماد اور مؤثر آپشن کے طور پر ابھر رہے ہیں۔
جاپانی سفیر نے فورم میں کہا، “پاکستانی پیشہ ور افراد کی کامیابی جاپان-پاکستان تعلقات کو مضبوط بنانے کا اہم ستون بنتی جا رہی ہے۔” اس بیان سے نہ صرف پاکستانی ورک فورس کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ دوطرفہ تعلقات اب انسانی سرمائے کے تبادلے پر استوار ہو رہے ہیں۔
پاکستانی وزرا کی شرکت بھی اس بات کا ثبوت تھی کہ حکومت اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ وفاقی وزیر برائے اوورسیز پاکستانی چوہدری سالک حسین نے اس موقع پر کہا کہ Specified Skilled Workers (SSW) پروگرام کے تحت مزید شعبہ جات جیسے صحت، زراعت اور تعمیرات کو شامل کر کے زیادہ مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزا فاطمہ نے بھی جاپان آئی ٹی ویک 2025 میں پاکستانی آئی ٹی کمپنیوں کی کامیابی کو نمایاں کرتے ہوئے مزید ٹیک روڈ شوز کی ضرورت پر زور دیا۔
لیکن اس عمل کے لئے صرف امکانات کافی نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان ایک مربوط قومی حکمتِ عملی تشکیل دے، جس میں جاپانی زبان و ثقافت کی تعلیم، فنی تربیت، اور بین الاقوامی تقاضوں سے ہم آہنگ مہارتوں کی تیاری کو فروغ دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ویزا اور بھرتی کے عمل کو شفاف اور آسان بنانا بھی اہم ہے تاکہ ورکرز استحصال سے محفوظ رہیں۔
یہ موقع صرف روزگار کا نہیں بلکہ علم، مہارت اور عالمی تجربے کا ہے—وہ عناصر جو وطن واپس آ کر ہماری معیشت، صنعت اور ادارہ جاتی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ترسیلات زر، جو ہماری معیشت کی بنیاد ہیں، جاپان جیسے مستحکم ملک سے آئیں تو نہ صرف معیاری بلکہ پائیدار بھی ہوں گی۔
اوساکا-کانسائی ایکسپو 2025 میں پاکستان پویلین کی مقبولیت اس بات کا اشارہ ہے کہ جاپانی عوام پاکستان میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہمیں اس دلچسپی کو طویل المدتی معاشی و ثقافتی تعلقات میں ڈھالنے کی فوری ضرورت ہے۔
جہاں جاپان کو ہنر مند ورکرز کی ضرورت ہے وہی پاکستان کے پاس نوجوان، باصلاحیت افراد کی کوئی کمی نہیں۔ اب فیصلہ ہماری ریاست، پالیسی سازوں، تعلیمی اداروں اور نجی شعبے کو کرنا ہے کہ وہ اس تاریخی موقع سے کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسلام آباد اور ٹوکیو کے درمیان ایک پل بن رہا ہے—اینٹوں اور سریے سے نہیں، بلکہ انسانوں کے خواب اور محنت سے۔ آئیں اسے مضبوط بنائیں تاکہ آنے والی نسلیں بھی اس پر فخر کر سکیں۔