خالدہ نیاز
چند روز قبل وفاقی وزیر فردوس عاش اعوان نے جب دوسرے سیاستدان کو تھپڑ رسید کیا تو اس حوالے سے کئی روز تک ٹریند چلتا رہا، ابھی یہ واقعہ کچھ تھما ہی تھا کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں ایسا ہنگامہ ہوا جو ابھی تک سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز کی زینت بنا ہوا ہے۔
کیا ہم لوگوں میں برداشت اسی حد تک آگئی ہے کہ اب ہمارے ایوانوں میں بھی منتخب نمائندے ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے لگے ہیں؟ یہ واقعی سوچنے کی بات ہے کیونکہ جس معاشرے میں عدم برداشت عام ہوجائے وہ قومیں ترقی کرنے کی بجائے زوال کا شکا ہوجاتی ہے۔
منتخب نمائندوں کا کام ایک اسمبلی میں لڑائی جھگڑے نہیں بلکہ ان کا کام قانون سازی ہوتا ہے اور ایسی قانون سازی جو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہو لیکن افسوس کہ ہمارے نمائندے عوام کا بھلا سوچنے کی بجائے لڑائی جھگڑوں میں الجھ گئے ہیں اور جس عوام نے انکو منتخب کیا ہے انکی داد رسی والا کوئی نہیں ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی کی اجلاس جاری تھی اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف تقریر کررہے تھے کہ اس دوران شور شرابہ شروع ہوا اور حکومتی اراکین کی جانب سے انکو تقریر سے روکا گیا تو اپوزیشن اراکین بھی تپ چڑھ گئی اور انہوں نے بھی ہنگامہ شروع کردیا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے قومی اسمبلی مچھلی منڈی بن گئی، بجٹ کی کاپیاں بھی پھاڑی گئی اور ساتھ میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین ایک دوسرے پر وار بھی کرتے رہے۔
ہنگامی ارائی اس قدر شدید ہوگئی کہ سکیورٹی اہلکار بھی بچاو کرنے آگئے لیکن اراکین نے جو کرنا تھا وہ کردیا دنیا کو اپنا جو چہرہ دکھانا تھا وہ دکھا دیا۔ اس ہنگامہ ارائی میں ایک خاتون رکن اسمبلی کی آنکھ بھی زخمی ہوگئی۔
قومی اسمبلی بہت طاقتور جگہ ہے جہاں عوام کی قسمت کے فیصلے کئے جاتے ہیں، یہ جگہ بہت مقدس ہے لیکن افسوس ہمارے منتخب نمائندوں کو شاید اس جگہ کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے کہ یہاں بیٹھ کر کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔
یہ منتخب عوامی نمائندے تب تو بہت دعوے کرتے ہیں جب ووٹ لینے کا وقت ہوتا ہے کہ ہم آپ کے لیے یہ کریں گے وہ کریں گے عوام کی قسمت بدل کے رکھ دیں گے لیکن جب کرنے کا وقت آتا ہے تب نظروں سے کہیں اوجھل ہوجاتے ہیں اور کبھی سکینڈل میں نظر آنا شروع ہوتے ہیں یا کوئی ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے۔
کل کے واقعے سے ایک بات تو عیاں ہوگئی ہے کہ ہمارے لوگوں میں برداشت کا مادہ ختم ہوچکا ہے، منتخب عوامی نمائندے اپنی ذمہ داریوں سے نبرد آزما نہیں ہورہے اور بیچارے عوام مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت تبدیلی کے نعرے کے ساتھ آئی تھی انہوں نے کہا تھا کہ اقتدار میں آتے ہی عوام کی قسمت کو بدل کے رکھ دیں گے لیکن افسوس جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے تب سے بیچاری عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے اور کورونا نے تو رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔
منتخب نمائندوں کا کام ایک دوسرے کو گالیاں دینا نہیں بلکہ ان کا کام قانون سازی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہے لیکن افسوس وہ ایسا کچھ نہیں کررہے بلکہ الٹا لوگوں کو ہنگامہ آرائی پر اکسارہے ہیں۔
ایک اور بات کہنا چاہوں گی کچھ ارکان اس ہنگامہ آرائی سے نہ صرف لطف اندوز ہوتے رہے بلکہ باقاعدہ ویڈیوز بھی بناتے اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے رہے۔
اب سپیکر قومی اسمبلی سپیکر اسد قیصر نے سات اراکین اسمبلی کے پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں داخلے پر پابندی عائد کردی ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا کرنے سے دوبارہ اسمبلی میں ایسے واقعات کا تدارک ہوسکے گا کیا اس سے ایوان کی وہ عزت واپس لائی جاسکتی ہے بالکل نہیں اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم لوگ اپنی سوچ میں تبدیلی لائے کیونکہ جب تک سوچ میں تبدیلی نہیں لائی جاتی تب تک بات نہیں بنتی۔
مہذب اراکین اسمبلی کبھی بھی دست و گریباں نہیں ہوتی بلکہ وہ تنقید کو برداشت کرکے ایسے اقدات کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ جس سے انکی پالیسیوں کو سراہا جاسکے اور عوام کو اس سے فائدہ پہنچ سکے۔
حکومت کا نعرہ بالکل درست ہے تبدیلی لیکن تبدیلی سوچ میں لانی پڑے گی ناکہ صرف نعروں کی حد تک اور ہاں تبدیلی لانی ضروری ہے لیکن مہنگائی کو کم کرکے اور لوگوں کی زندگی بدل کر نہ کہ اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کرکے۔