سٹیزن جرنلسٹ طارق عزیز
سینیٹ انتخابات پر وقتا فوقتا انگلیاں اٹھتی رہی ہے اور اسے اکثر ہارس ٹریڈنگ سے جوڑا جاتا رہا ہے۔ یہ اعتراضات اس وقت سچ دیکھائی دیتے ہیں جب سنیٹ کا ٹکٹ ان لوگوں کو مل جاتا ہے جن کی واحد کوالیفیکیشن صرف پیسہ ہے۔ پھر الیکشن میں ووٹ کی خرید و فروخت بھی اس میں ایک اہم عنصر ہے۔
لیکن اس بار سنیٹ الیکشن نسبتا ذیادہ متنازعہ ہوگیا اور اس کی شروعات اس وقت ہوئی جب حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے ایک ارڈیننس کے ذریعے خفیہ بیلٹ کی بجائے اوپن بیلٹ سے انتخابات کروانے پر رائے مانگی، سپریم کورٹ میں اس پہ کافی بحث ہوگئی لیکن اس انتخابات کو سیکریٹ بیلٹ کے ذریعے کروانے کا کہا گیا۔
اس انتخابات میں سب سے دلچسپ صورتحال اس وقت بنی جب اسلام اباد کی نشست پر پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ نے اپنے تگڑے امیدوار سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو میدان میں اتاردیا جبکہ اس کے مقابلے میں حکومت میں شامل اتحادیوں نے وزیرخزانہ حفیظ شیخ کو امیدوار نامزد کیا نتیجتا یوسف رضا گیلانی اسلام اباد کی سیٹ جس کےلئے قومی اسمبلی ہی الیکٹورل کالج تھا،کامیاب ہوگئے اور حکومت کی قومی اسمبلی میں اکثریت پہ انگلیاں اٹھنے لگی۔
اس کے جواب میں عمران خان نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے اپنے اپ کو اس دلدل سے وقتی طور پر بچالیا۔ اس کے بعد چئیرمین سنیٹ کے لئے الیکشن ہوگئے اور بظاہر کم سیٹوں پر مشتمل حکومتی اتحادی دونوں نشستوں پر کامیاب ہوگئی۔ اپوزیشن امیدوار یوسف رضا گیلانی کے 7 ووٹ مسترد ہوگئے جس سے ایک نیا تنازعہ کھڑا ہوگیا اب یہ معاملہ عدالت میں جارہا ہے۔ دیکھتے ہیں کیا نتیجہ نکلتا ہے لیکن اس پورے منظر کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جمہوری نظام ایک بار پھر عدلیہ اور میڈیا کے کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا۔
کافی عرصے سے جس مقصد کیلئے پلاننگ ہورہی تھی کہ کس طرح عوام کو جمہوریت اور پارلیمانی نظام سے متنفر کیا جائے؟ اس کیلئے پہلے تو سیاستدانوں کو چور اور ڈاکو ثابت کرنے کے تمام حربے استعمال کئے گئے۔ اور اب سیاستدانوں کے غلط فیصلے اس بیانئے کیلئے تقویت کا باعث بن رہے ہیں۔
عدلیہ میں چئیرمین سنیٹ الیکشن کا مسئلہ جائے گا تو وہاں بھی سخت ریمارکس کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور میڈیا میں بھی اس کو اچھالا جائے گا جس سے نقصان اس ملک کو اور جمہوری نظام کو ہوگا۔ ایک بار پھر ان عناصر کو اپنا بیانیہ مضبووط کرنے کا موقع ملے گا کہ سیاستدان اصل میں چور، ڈاکو اور نا اہل ہیں اور ان تمام ناکامیوں کا زمہ دار ہی سیاسدان ہیں اور جمہوریت کے دشمنوں کے اس بیانئے کو سچ ثابت کرنے کیلئے ہمارے سیاستدان بھی اپنا پورا حق ادا کررہے ہیں۔
ملکی سیاست میں عدم برداشت میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے جو کسی بھی طرح ایک مثبت اشارہ نہیں ہے یہ سیاسی عدم استحکام، کرپشن کے قصے،الیکشن کے منصفانہ انعقاد میں ناکامی اور عدم برداشت اس بیانئے کو مضبوط بنارہی ہیں کہ سیاستدان نااہل،چور اور ڈاکو ہیں اور ان میں ملک چلانے کی صلاحیت موجود نہیں۔
لیکن اس بیانئے کو رد کرنے کی تعویز بھی ان سیاستدانوں کے ساتھ ہے اور وہ یہ کہ ملک میں پارلیمنٹ کو مضبوط بنایا جائے، ذاتی حملوں کی بجائے ایشوز کی بنیاد پر سیاست کی جائے اور اس ملک کو عوامی فلاحی ریاست بنانے کیلئے زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقدامات کرائے جائیں، تبھی جمہوریت مضبوط ہوگی اور جمہوریت ہی وہ واحد نظام ہے جو پاکستان کی بقاء کی ضمانت ہیں۔