پشاور، لواحقین کا اپنے لاپتہ عزیزوں کی جلد از جلد بازیابی کا مطالبہ
خیبر پختونخوا کے ضلع سوات سے لاپتہ افراد کے لواحقین نے حکومت سے پشاور ہائیکورٹ سے بری ہونے والے افراد کی رہائی اور لاپتہ افراد کی جلد از جلد بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔
منگل کو پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سوات کے مختلف گاؤں اور دیہاتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اور ضعیف مرد حضرات کا کہنا تھا کہ 2009 میں سوات میں دہشت گردوں کیخلاف کئے گئے فوجی آپریشن کے دوران لگ بھگ تین ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جن میں ان کے بچے بھی شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان زیر حراست میں لگ بھگ 200 افراد کو پشاور ہائی کورٹ نے رہا کرنے کا حکم دیا تھا لیکن حکومت نے ان کی رہائی کے بجائے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرکے حکم امتناعی لے لیا ہے جو سراسر زیادتی اور ناانصافی ہے۔ لواحقین کے مطابق گرفتار ہونے والے ان کے رشتہ دار بے گناہ اور مظلوم ہے۔
یاد رہے کہ نیشنل ایکش پلان کے تحت بننے والی فوجی عدالتوں نے سینکڑوں افراد کو سزائیں دی تھیں۔
بعدازاں ان مبینہ دہشت گردوں نے ان سزاؤں کیخلاف پشاور ہائیکورٹ میں اپیلیں دائر کیں جس کی روشنی میں پشاور ہائیکورٹ نے فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے کر 196 افراد کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
خیبر پختونخوا حکومت کی اپیل پر سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کر کے اس کیخلاف حکم امتناعی جاری کیا ہے جو ابھی تک برقرار ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام پورے ملک میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئی تھیں۔