پی ڈی ایم اجلاس، ایک میثاق طے کرنے پر اتفاق
حکومت کے خلاف متحدہ اپوزیشن کے اتحاد ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم ) نے پاکستان میں حقیقی، آئینی اور جمہوری نظام کی بحالی کے حوالے سے ایک میثاق طے کرنے پر اتفاق کیا ہے اس حوالے سے تیرہ نومبر کو پی ڈی ایم کی سٹیرنگ کمیٹی کا اجلاس ہو گا جس میں تمام پارٹیاں میثاق کے حوالے سے اپنی اپنی تجاویز پیش کریں گی جنہیں اگلے روز پندرہ نومبر کو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں حتمی شکل دی جائے گی، جلسے شیڈول کے مطابق ہوں گے جبکہ اجلاس میں وزیر داخلہ اعجاز شاہ کے بیان، کراچی واقعہ کی تحقیقاتی رپورٹ میں تاخیر اور فارن فنڈنگ کیس میں التواء کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ ساری دنیا کو چور کہا جا رہا ہے، عدالتوں اور نیب میں گھسیٹا جا رہا ہے اور خود کے اوپر دائر مقدمات التواء کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، دال میں سب کچھ کالا ہی ہے، جنرل (ر) عاصم باجوہ اور جہانگیر ترین کی کرپشن بارے اٹھنے والے سوالات پر حکومت کی خاموشی کرپشن کو تحفظ دینے کے مترادف ہے، میر شکیل الرحمن کو فوری رہا کیا جائے۔
اتوار کو اجلاس کے بعد سابق وزرائے اعظم شاہد خاقان عباسی، راجہ پرویز اشرف اور پی ڈی ایم کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ تمام پارٹیوں کے سربراہان اور بعض پارٹیوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ اجلاس میں سابق وزیر اعظم نوازشریف اور سابق صدر آصف علی زر داری ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔
اجلاس میں مجموعی سیاسی صورتحال اور آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کیا گیا، اس وقت جو انتہائی سنگین اور حساس مسئلہ ہے وہ معاشی بحران کا ہے جس نے عام شہری کی زندگی کو اجیرن کر دیا ہے، اس کا سکون اور عزت نفس چھین لیا گیا ہے اور محترم شہری کی حیثیت سے وہ زندگی گزار نے کے قابل نہیں رہا اس تمام تر صورتحال میں متحدہ ڈیمو کریکٹ موومنٹ نے تحریک کو آگے لے جانے اور ملک کے مختلف حصوں میں جلسہ عام منعقد کرنے کے سابقہ شیڈول پر بھی بات کی اور آئندہ کیلئے شیڈول طے کر نے کے طریقہ کار پر بھی بات کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کے نزدیک اس کا اصل ہدف پاکستان میں حقیقی، آئینی اور جمہوری نظام کی بحالی ہے اس حوالے سے ایک میثاق طے کر نے پر اتفاق ہوا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ تیرہ نومبر کو سٹیرنگ کمیٹی کااجلاس ہوا جس میں تمام پارٹیاں ایک متفقہ میثاق کیلئے اپنی اپنی تجاویز لائیں گی اور اور تمام پارٹیوں کی تجاویز کے اشتراک کے ساتھ ایک متفقہ میثاق طے کرلیا جائے گا، چودہ نومبر کو اسلام آباد میں سربراہی میں اجلاس ہوگا جو اسٹیرنگ کمیٹی کی سفارشات کو حتمی شکل دے گی۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں 19 اکتوبر کو کراچی میں مقامی ہوٹل کے اندر مریم نواز شریف اور ان کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اور اس کی پاداش میں جس طرح وہاں کی پولیس کی اعلیٰ کمان کی توہین و تذلیل کی گئی اس کی ایک بار پھر شدید مذمت کی گئی کیونکہ صوبے کے تمام افسران نے چھٹی پر جانے کا فیصلہ کر لیا تھا جس کے بعد ان کو کہا گیا کہ ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائیں گے جو دس روز تک سفارشات پیش کرے گی لیکن تین ہفتے ہو رہے ہیں اس کی کسی قسم کی کوئی رپورٹس سامنے نہیں آ رہی ہیں، کیوں نہیں آ رہی ہیں، کس بنیاد پر تاخیر کی جا رہی ہے اس حوالے سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا اور پولیس کے ساتھ ناروا سلوک کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پاکستان کے وزیر داخلہ اعجاز شاہ کے بیان پر احتجاج کیا گیا ہے جس میں انہوں نے ایک طرف اعتراف کیا ہے کہ ماضی میں عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین اور ان کے اراکین شہید کئے گئے وہ کیوں شہید کئے گئے تھے ؟ اور آنے والے دنوں میں پھر مسلم لیگ کو دھمکی دی ہے کہ اگر وہ اس روش پر جائے گی تو ان کے لوگ بھی قتل کئے جائینگے یہ ریاست کی سطح پر اعتراف ہے کہ پاکستان میں اصل دہشتگرد کون ہے؟
انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ان کے معزز اراکین کو نشانہ بنانے والی اصل قوتیں کون ہیں؟ فرنٹ پر دہشتگردوں کو رکھتے ہیں اور درحقیت اس کی منصوبہ سازی ریاست کی سطح پر کیوں ہوتی ہے اس پر شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ طے کیا گیا ہے کہ اگر کوئی دوسرا راستہ ہوتا یا پی ڈی ایم کے جلسوں میں واقعہ ہوتا ہے تو ہمیں تحقیق کی ضرورت نہیں ہو گی، ہمیں اس میں جرم کرنے والی شخصیات اور اداروں کا پتہ چل گیا ہے یہی ان کے ذمہ دار ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیوں لیٹ ہوا ہے، ساری دنیا کو چور کہا جا رہا ہے، عدالتوں اور نیب میں گھسیٹا جا رہا ہے اور خود کے اوپر دائر مقدمات التواء کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، صاف ظاہر ہے کہ دال میں سب کچھ کالا ہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں سپریم کورٹ کے ریمارکس انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اس سے حکومتوں کے رویے، وزیر اعظم ہاؤس اور ایوان صدر اور اداروں کے رویے صاف طور پر سامنے آ رہے کہ وہ ملک کی سیاسی، آئینی و جمہوری نظام پر کس قدر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تعجب کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کے خلاف آئے روز مقدمات دائر کئے جا رہے ہیں لیکن عاصم باجوہ اور جہانگیر ترین کی کرپشن کے بارے میں اٹھنے والے سوالات پر خاموشی حکومت کی طرف سے کرپشن کو تحفظ دینے کے مترادف ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جنگ گروپ کے چیف ایڈیٹر میر شکیل الرحمن کی گرفتاری پر انتہائی تشویش اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور اس گرفتاری کو ایک ناجائز اور میڈیا کے خلاف کارروائی قرار دیا گیا ہے، ان کی زبان بندی اور گلہ گھونٹنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ کسی کا نام لینا یا نہ لینا کوئی مسئلہ نہیں ہے، میڈیا نے اس کو مسئلہ بنا دیا ہے، سب جانتے ہیں جب اسٹیبلشمنٹ کا نام لیا جاتا ہے تو کون مراد ہوتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ہم اداروں کا احترام کرتے ہیں اگر اگر سیاستدانوں میں ایک شخص کا نام لیا جا سکتا ہے، وزیر اعظم کا نام لیا جا سکتا ہے، صدر مملکت کا نام لیا جا سکتا ہے اور ادارے کے کسی اور فرد کا نام بھی لیا جا سکتا ہے لیکن ایسی کوئی جرم کی بات نہیں ہے بہرحال ہم اس حوالے سے حقیقت پسندی کی طرف جانا چاہتے ہیں۔