پاسپورٹ آفس جمرود کا یومیہ 120، سال میں 34 ہزار پاسپورٹ جاری کرنے کا انکشاف
نئے پاسپورٹ وہ لوگ بناتے ہیں جو عمرے، حج اور بیرونی ممالک مزدوری یا تعلیم کے لئے جاتے ہیں۔ زیادہ تر نئے پاسپورٹ بنانے والے نوجوان ہیں؛ 18 سال سے لے کر 35 سال تک کی عمر کے افراد نیا پاسپورٹ بنوانے آتے ہیں۔ ذرائع
خیبر: پاسپورٹ آفس جمرود نے سال میں 34 ہزار پاسپورٹ جاری کئے ہیں؛ ذرائع کے مطابق دفتر میں روزانہ 120 نئے پاسپورٹ بنائے جاتے ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں ذرائع کا کہنا تھا کہ مارچ 2024 سے پہلے نارمل پاسپورٹ فیس 3 ہزار؛ ارجنٹ پاسپورٹ فیس 5 ہزار مقرر تھی جبکہ اپریل 2024 سے پاسپورٹ فیس میں اضافہ ہوا ہے: نارمل پاسپورٹ (پانچ سالہ) کی فیس چار ہزار پانچ سو جبکہ ارجنٹ پاسپورٹ (پانچ سالہ) کی فیس سات ہزار پانچ سو روپے مقرر ہے۔ 2024 سے عام لوگوں کے لئے ای (الیکٹرانک) پاسپورٹ بھی جمرود آفس میں بنائے جاتے ہیں۔ پانچ سالہ ای پاسپورٹ کی نارمل فیس 9 ہزار، پانچ سالہ ارجنٹ پاسپورٹ کی فیس 15 ہزار ہے۔ اس کے علاوہ دس سالہ نارمل ای پاسپورٹ کی فیس 13500 اور دس سالہ ارجنٹ ای پاسپورٹ کی فیس 22500 روپے ہے۔
ذرائع کے مطابق نئے پاسپورٹ وہ لوگ بناتے ہیں جو عمرے، حج اور بیرونی ممالک مزدوری یا تعلیم کے لئے جاتے ہیں۔ زیادہ تر نئے پاسپورٹ بنانے والے نوجوان ہیں؛ 18 سال سے لے کر 35 سال تک کی عمر کے افراد نیا پاسپورٹ بنوانے آتے ہیں۔ یہ صرف ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے ان افراد کی تفصیلات ہیں جو جمرود تحصیل میں قائم پاسپورٹ آفس کی طرف رجوع کرتے ہیں جبکہ زیادہ تر نوجوان اور دیگر افراد جو پشاور حیات آباد پاسپورٹ آفس جاتے ہیں ان کی تفصیلات سردست موجود نہیں۔ اگر روزانہ 120 پاسپورٹ بنوائے جاتے ہیں تو یہ مہینے میں تین ہزار سے متجاوز ہیں جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عمرے اور حج کے علاوہ اکثریت ان نوجوانوں کی ہے جو بے روزگار ہیں اور غربت مٹانے کے لئے ملک سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایپکس کمیٹی اجلاس؛ کرم میں بنکرز، اسلحے کا رجحان مکمل ختم کرنے کا فیصلہ
مقامی لوگوں نے بتایا کہ ایسے نوجوان بھی ہیں جو ٹریول ایجنٹس یا بیرون ملک نوجوانوں کو روزگار دلوانے والے ایجنٹس جھانسے دے کر غیرقانونی طریقوں سے بھی نوجوانوں کو ملک سے باہر دھکیل کر ان کی زندگیوں سے کھلواڑ کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں بیٹھے کچھ پراپرٹی ڈیلرز بھی نوجوانوں کو بیرون ملک بھجوانے کے جھانسے دے کر نقد رقومات لے کر دو اور تین سال کاروبار چلاتے ہیں اور پھر رقم نکلوانے کے لئے کافی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ غربت اور بے روزگاری سے تنگ خاندانوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم از کم اپنے گھر کے ایک نوجوان کو بیرون ملک بھجوائیں تاکہ ان کے معاشی مسائل کم ہو سکیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ نوجوانوں کو بیرون ممالک بھجوانے والے ایجنٹس کو اگر ایف آئی اے حکام پکڑیں تو وہ بہت کچھ اگل دیں گے جن کا سارا دھندا بے ایمانی پر چل رہا ہے۔