ماضی کے کھیل جو اب گم ہوتے جا رہے ہیں!
گلی ڈنڈا، پٹھوگرم اور پتنگ بازی کی جگہ اب پب جی، فری فائر، ٹیمپل رن، اور کینڈی کرش نے لے لی ہے۔ بچے بستر سے باہر نہیں نکلتے، جبکہ ہم گلی سے گھر واپس نہیں آتے تھے۔ زندگی بدل گئی ہے، وقت بدل رہا ہے اور کھیل بھی تبدیل ہو چکے ہیں۔ بزرگ شہری کا اظہار تاسف
گلی ڈنڈا، بنٹے، آنکھ مچولی، ”سخے”، "شلغتی”، پتنگ بازی، رسہ کشی اور کبڈی کبھی دیہی علاقوں کی پہچان ہوا کرتے تھے۔ یہ کھیل نہ صرف تفریح کا ذریعہ تھے بلکہ ایک ثقافتی ورثہ بھی تھے۔ یہ جسمانی سرگرمیاں آپسی میل جول کو بھی فروغ دیتی تھیں۔ الگ الگ علاقوں اور زبانوں کی وجہ سے اِن کھیلوں کے نام مختلف ضرور ہوتے تھے لیکن کھیل کم و بیش ایک جیسے ہی ہوتے تھے۔ تاہم، جدید دور کی تفریحی عادات، چ کے غلبے کے باعث یہ کھیل ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
ضلع ملاکنڈ کے علاقے الاڈھنڈ ڈھری سے تعلق رکھنے والے محمد جمیل جمیل کاچوخیل نے اپنی کتاب "اوس دی یادونہ افسانے خکاری” میں ان روایتی کھیلوں کے مختلف پہلوؤں کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں کاچوخیل نے بتایا: "ایک دن میں نے اپنے بیٹے سے ان روایتی کھیلوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ ہمیں اپنے ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی سوچ نے مجھے یہ کتاب لکھنے پر آمادہ کیا۔ اس کتاب کے لیے میں نے باقاعدہ تحقیق نہیں کی بلکہ وہی کھیل لکھے جو ہم اپنے زمانے میں کھیلا کرتے تھے۔”
آنکھ مچولی کے بارے میں جمیل صاحب نے پرانی یادیں شیئر کرتے ہوئے بتایا: "کھیل عمر کے ساتھ بدلتا جاتا تھا۔ بچے آنکھ مچولی میں گھر کے مختلف کونوں میں چھپتے تھے، لیکن جب بڑے ہو جاتے تو ان کی چھپنے کی جگہیں بھی تبدیل ہو جاتیں، وہ دور دور جا کر چھپتے حتیٰ کہ بعض اوقات قبرستان کی پرانی قبروں تک جا پہنچتے۔ اُس وقت یہ کھیل صرف تفریح نہیں بلکہ جرات کا اظہار بھی تھا۔”
یہ بھی پڑھیں: حکومتی ”گمراہ کن” بیانات کی مذمت؛ کرم میں کل سے تعلیمی ادارے بند، احتجاجی تحریک کی دھمکی
اسی موضوع پر 73 سالہ حبیب الرحمن دادا نے بتایا: "ہمارے بچپن کی سب سے بڑی خوشی گلی ڈنڈا کھیلنا تھی۔ ہم دن بھر محلے کے دوستوں کے ساتھ میدانوں میں کھیلتے اور شام کو تھک ہار کر گھر لوٹتے۔ آج کل کے بچے گلی ڈنڈا یا بنٹوں کے نام تو شاید جانتے ہوں لیکن انہیں کھیلنے کا موقع نہیں ملتا۔ اس کے ساتھ ساتھ گرمیوں کے موسم میں ہم دریا میں مختلف کھیل کھیلا کرتے تھے۔ آج کل جب گرمیوں میں دریا کے کنارے جاتا ہوں تو وہ کھیل نظر نہیں آتے۔ کبھی کبھار بچوں کو پیسے دے کر وہ روایتی کھیل کرواتا ہوں، مگر اس میں وہ مزہ نہیں آتا جو ہم اپنے وقت میں لیا کرتے تھے۔”
اسی طرح 70 سالہ شفیع اللہ شالدا نے "شلغتی” (ایک قسم کا کھیل جو خیبر پختونخوا میں کھیلا جاتا ہے) کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا: "ہم اکثر بارش کے موقع پر ”شلغتی” کھیلا کرتے تھے۔ اس کا طریقہ کچھ یوں تھا کہ ایک ٹیم مختلف جگہوں پر چھپ چھپ کر چھوٹی چھوٹی لکیریں کھینچتے جیسے دیواروں، دروازوں، کھڑکیوں اور زمین وغیرہ پر۔ دوسری مخالف ٹیم ان لکیروں کو تلاش کرتی اور انہیں ہٹاتی۔ آخر میں باقی لکیریں جو دوسری ٹیم نے نہیں ہٹائی ہوتیں، ان کی تعداد معلوم کی جاتی، اور اس حساب سے مخالف کھلاڑیوں کو ‘چپاتی’ مارتے۔ (‘چپاتی’ کھیل کی اصطلاح ہے؛ حریف کھلاڑی کے ہاتھ پر دو انگوٹھوں سے ضرب لگاتے)۔ یہ کھیل نہ صرف ہمیں جسمانی طور پر مضبوط رکھتے تھے بلکہ ذہنی طور پر بھی چوکنا کرتے تھے، خصوصاً ان سے ہماری ریاضی کی مشق، جمع اور منفی، بہتر ہوتی تھی۔”
علاقے کے دیگر بزرگوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ آج کے دور میں بچوں کو یہ کھیل کھیلنے کے مواقع نہیں ملتے: "ہم جو کھیل بچپن میں کھیلتے تھے وہ آج کہیں نظر نہیں آتے۔ گلی ڈنڈا، پٹھوگرم اور پتنگ بازی کی جگہ اب پب جی، فری فائر، ٹیمپل رن، اور کینڈی کرش نے لے لی ہے۔ بچے بستر سے باہر نہیں نکلتے، جبکہ ہم گلی سے گھر واپس نہیں آتے تھے۔ زندگی بدل گئی ہے، وقت بدل رہا ہے اور کھیل بھی تبدیل ہو چکے ہیں۔
رحمت بی بی نے کہا:”لڑکے گلی ڈنڈا، پٹھو گرم، چور سپاہی اور کرکٹ وغیرہ کھیلتے تھے جبکہ لڑکیاں گُٹے (مرغاٹی)، رسی پھلانگ، چھپن چھپائی، اونچ نیچ کھیلتی تھیں اور زیادہ تر اپنی گڑیوں کے کپڑے بناتیں اور ان کی شادیاں کراتی تھیں۔ یہ کھیل ہر گھر، گلی اور محلے میں کھیلے جاتے تھے۔”
محمد جمیل جمیل کاچوخیل نے نوجوانوں کے لیے پیغام دیتے ہوئے کہا: "یہ کھیل ہمارے ماضی کے روشن پہلو ہیں۔ ان کے ذریعے ہم نے دوستی، صبر، جرات اور جسمانی سرگرمیوں کا سبق سیکھا۔ میں چاہتا ہوں کہ ہماری آنے والی نسلیں بھی ان روایتی کھیلوں سے آشنا ہوں اور انہیں اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ روایتی کھیلوں کا خاتمہ نہ صرف ایک ثقافتی نقصان ہے بلکہ بچوں کی جسمانی سرگرمیوں میں کمی کا بھی باعث بنتا ہے۔ ضروری ہے کہ ہم سب مل کر ان کھیلوں کو دوبارہ زندہ کریں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اس قیمتی ورثے سے فائدہ اٹھا سکیں۔”