موسمیاتی تبدیلی نے پشاور کے محراب کاکا کو کیسے متاثر کیا ہے؟
کیف آفریدی
آج کی تاریخ میں انسان کی بقا کو درپیش سب سے بڑا چیلنج نہ ہی تیسری جنگ عظیم ہے اور نہ ہی معیشت، کیونکہ جنگیں صلح صفائی سے ختم کی جاسکتی ہیں اور معاشی بحران کے لیے اچھی حکمت عملی پیش کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح کسی مہلک بیماری کے لیے بھی ویکسین کی ایجاد سے مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن موسمیاتی تبدیلی یا تغیر کو نہ روکا گیا تو دنیا ہی ختم ہو جائے گی اور جب دنیا نہیں رہے گی تو انسان کیسے بچے گا؟ اس لیے دنیا بھر کے لیڈرز آپس میں مل رہے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کے تدارک کے لیے جامع پالیسی اپنانے کی کوشش میں لگے ہیں۔ لیکن اسکے باجود موسیمیاتی تبدیلی کے حوالے سے تباہی کے واضح آثار کو روکا نہیں جاسکا اور یہ تلوار ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کیا ہے؟
کسی ایک علاقے کی آب و ہوا کئی سالوں کے موسم کا اوسط ہوتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی اس اوسط میں تبدیلی کو کہتے ہیں۔ زمین اب بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے اور عالمی درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی یا تغیرات کا تعلق دن، ہفتہ، مہینہ یا سال سے نہیں بلکہ موسمی تغیر کا تعارف یہ ہے کہ دنیا بھر کی سطح پر جب اوسط موسم تبدیل ہوتا ہے اس کو گلوبل کلائمیٹ چینج کہا جاتا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اوسط موسموں میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان میں رواں سیزن میں گندم کی فصل کو بھی نقصان پہنچا۔ گندم کی فصل دسمبر کے مہینے میں کاشت کی جاتی ہے اور اسکے لیے پانی مہیا کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے ورنہ فصل تباہ ہونے کا خدشہ ضرور رہتا ہے۔ پشاور کے علاقے باغوانان سے تعلق رکھنے والے محراب کاکا کا کہنا ہے کہ انکے اپنے علاقے میں پانچ جریب زمین ہے اور ہر سال دسمبر کے مہینے میں وہ اس پرگندم کاشت کرتے ہیں۔ پانچ جریب کی زمین سے انہیں ہر سال 45 سے 50 من گندم حاصل ہوتی ہے پر پچھلے کئی سالوں سے کم بارشوں یا وقت پر بارشیں نہ ہونے سے گندم کم ہوتی جارہی ہے۔ اس دفعہ دسمبر کے مہینے میں بارشیں نہ ہونے سے انکی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔
محراب کاکا کہتے ہیں کہ وہ اس سال نہ صرف گندم سے محروم ہو گئے بلکہ کاشت کاری کے وقت ٹریکٹر کے کرائے وغیرہ پر اٹھنے والے اخراجات کا بھی انہیں نقصان ہوا ہے۔ اب چونکہ انکی فصل تباہ ہو چکی ہے تو اس سال یہ اپنے لیے آٹا کسی اور سے خریدنے پر مجبور ہیں، جو انکے بس سے باہر ہے کیوںکہ ایک طرف تو مہنگائی ہے اور دوسری طرف انکی فصل تباہ ہو گئی۔
باغوانان گاؤں میں جن کسانوں کے پاس جرنیٹرز تھے انہوں نے ٹٰیوب ویلوں کے ذریعے اپنی فصلوں کو سیراب کیا یا جنہوں نے سولر پینل لگائے ہیں وہ بھی فائدے میں رہے کیونکہ اس علاقے میں بجلی نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ علاقہ بارانی ہے اور وقت پر بارشیں نہ ہونے سے فصلیں مکمل طور تباہ ہو گئیں جبکہ وہ کسان جنہوں نے جنریٹرز یا سولر پینلز لگائے تھے وہ وقت پر اپنی فصلوں کو پانی سے سیراب کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں وہ اس نقصان سے بچ گئے ہیں۔
محراب کاکا کے مطابق اگر یہی حال رہا تو وہ پھر گندم کاشت کرنے کی بجائے کوئی اور فصل یا سبزی بوئیں گے کیوںکہ جو نقصان انہیں پچھلے کئی سالوں سے ہو رہا ہے ان سے انکو خسارہ کا سامنا ہے۔ محراب کاکا کی طرح اور بھی کئی کسان ہیں جو اسطرح کی مشکلات سے دوچار ہیں۔
محکمہ زراعت کی رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں حالیہ بارش اور ژالہ باری سے 36 ہزار 642 ایکڑ زمین پر کھڑی فصلوں اور باغاتوں کو نقصان پہچا ہے۔ بارانی علاقوں میں گندم کی فصل کو نقصان پہنچنے سے اس کی جگہ دوسری کوئی فصل کو اگائے جانے سے کسان نقصان سے بچ سکتے ہیں۔ مثلا گندم کی جگہ سرسوں کی کاشت کثرت سے کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح کوئی فصل یا سبزی نہیں اگ سکتی تو متبادل ذرائع تلاش کرکے ان کو کاشت کیا جائے۔ گلوبل وارمنگ کے باعث جو فصلوں کی پیداوار کا پیٹرن ہے وہ بھی تبدیل ہونا چاہئے۔
ماہر موسمیات اور سابق چیف میٹرولوجسٹ مشتاق علی شاہ کے مطابق گزشتہ سو سال کے دوران جہاں درجہ حرارت میں ایک فیصد فرق آیا ہے اسی کو موسمیاتی تبدیلی کہا جاتا ہے۔ اس میں خطرناک بات یہ ہے کہ پہلے 70 سال میں درجہ حرارت میں اعشاریہ 4 کا فرق آیا تھا لیکن باقی تیس سال میں اعشاریہ 6 درجہ حرارت کا فرق آیا ہے اس کا مطلب کہ مختلف وجوہات کی بنا پر درجہ حرارت میں تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔
عالمی سطح پر درجہ حرارت میں فرق آنے یعنی موسمیاتی تبدیلی کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں جن میں تیل اور ایندھن کا کثیر استعمال، گاڑیوں، فیکٹریز اور کارخانوں سے نکلنے والا دھواں، نیوکلیئر پلانٹس سے نکلنے والے تابکار مادے، جنگلات کی وسیع پیمانے پر کٹائی اور بڑھتی ہوئی آبادی جیسے عوامل سر فہرست ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب سے درجہ حرارت میں فرق آنا شروع ہوا تو بارشوں، سیلابوں اور ہواوں کا پیٹرن بھی تبدیل ہو گیا۔ کئی سالوں سے دیکھا جارہا ہے کہ بے ترتیب ہوائیں چلتی ہیں اچانک بارش شروع ہو جاتی ہے۔ خطرناک طوفان آتے ہیں، حتیٰ کہ سیلاب آتے ہیں۔ اسی تغیر کی وجہ سے پاکستان میں سال 2022 اکتوبر کے مہینے میں تباہ کن سیلاب آیا تھا۔ ملک بھر میں سترہ سو سے زائد افراد لمہ اجل بن گئے۔ 12 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ تین کروڑ سے زائد افراد متاثر ہو گئے۔ اسی طرح تقریبا 30 ارب ڈالر کا معاشی نقصان بھی ہوا۔
یہ سیلاب سال 2020 کے جنوب ایشیائی سیلاب کے بعد دنیا کا سب سے مہلک سیلاب تھا۔ اور اسے ملک کی تاریخ کا بد ترین سیلاب قرار دیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اسے دنیا کی اب تک مہنگی قدرتی آفات میں سے ایک کے طور پر بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق خیبرپختونخوا میں اگر بارانی ڈیمز بنائے جائیں تو نہ صرف توانائی کی پیداوارمیں اضافہ ہو گا بلکہ پانی کی بچت سمیت بہت سارے فوائد مل سکتے ہیں۔