خیبرپختونخوا میں موسمیاتی تغیر سے فصلوں کی پیداوار متاثر
رانی عندلیب
خیبرپختونخوا کے ایک مقامی کسان آیاز خان کا کہنا ہے کہ اس دفعہ بارش اور ژالہ باری کی وجہ سے فصلوں کو کافی نقصان پہنچا ہے اور جو فصل بچ چکی ہے وہ بھی استعمال کے قابل نہیں رہی۔ ان کا کہنا ہے کہ کسان سارا سال محنت کرکے گندم اور باقی فصل اگاتا ہے لیکن گزشتہ چند سالوں سے بے وقت کی بارشوں اور سیلابوں نے کسانوں کا سکھ چھین لیا ہے۔
ملک کے کئی علاقوں میں بارش اور ژالہ باری سے کسانوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ مختلف فصلیں تیار ہے لیکن فصل کو کٹائی سے قبل بارش اور ژالہ باری سے بھاری نقصان پہنچا ہے۔ جبکہ اس بارش سے سبزیوں کی پیداوار بھی متاثر ہوئی ہے جس کا سب سے بڑا اثر عام عوام پر پڑتا ہے جو مہنگائی کے باوجود ناپسندیدہ سبزی بھی 250 اور 300 روپے فی کلو خریدتے ہیں۔
اس سلسلے میں زرعی یونیورسٹی پشاور کے سابقہ چیئرمین پروفیسر محمد اکمل کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا پر موسمیاتی تغیر کے اثرات زیادہ مرتب ہوئے ہیں۔ گورنمنٹ نے بہت پہلے یہ کہا تھا کہ خیبر پختونخوا ایک ایسا علاقہ ہے جو کلائمیٹ چینج کی وجہ سے زیادہ ایفیکٹ ہوگا کیونکہ یہاں پر سب سے بڑے گلیشیئرز موجود ہیں۔ یہ نا ہموار زمین ہے اور یہاں جب بھی گلیشرز پگلنے لگیں گے تو اس کا سارا پانی پنجاب سندھ سے ہوتا ہوا خیبر پختونخوا ائے گا۔ یہاں پر موٹر موٹروے بنانے کے لیے اور بہت ساری ابادی اور فیکٹری تعمیر کرنے کے لیے جنگلات کا کٹاؤ کیا گیا جس کا خمیازہ ہم سیلاب کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تغیر سے متاثر ہونے والے ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے۔ پاکستان ترقی پذیر ملک ہے معاشی لحاظ سے ایک غریب ملک ہے۔ یہاں پر سارا انحصار زرعی پیداوار پر ہے لیکن اس کے لیے کوئی بھی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے جبکہ خیبر پختونخوا کی بات کریں گے تو یہ ایک کمزور خطہ ہے۔ سیلاب اور زلزلہ اور قدرتی افات میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ خیبر پختونخوا ہے اس لیے یہاں پر جتنے بھی گھر بنائے گئے ہیں وہ ایسے ہیں جو سیلاب کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہر سال بارشوں اور سیلاب میں بہہ جاتے ہیں۔ یہاں کی ابادی زیادہ ہے جبکہ غذائی پیداوار کم ہے سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے کچھ فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں اور جو باقی بچ جاتي ہیں ان کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے جو عام عوام کی پہنچ سے بہت دور ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہماری ضروریات پوری کرنے کے لیے پھر ملک قرضے لیتا ہے قرض لینے کی وجہ سے کرنسی پر فرق پڑتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا اثر روزمرہ اشیائی خوردونوش پر پڑتا ہے جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی خوب عروج پر ہے اس لیے زراعت میں استعمال ہونے والی اشیاء بھی مہنگی ہو گئی ہے۔ خرچے اتنے زیادہ ہیں کہ کسان اپنے گھر کا خرچہ بھی اس میں پورا نہیں کر سکتا۔ فصلوں کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنی۔ ہمارے ہاں پہلے چار موسم تھے اب وہ ایک دوسرے میں اتنے مکس ہو گئے ہیں جس کے برے اثرات زراعت پر پڑ رہے ہیں۔ جن علاقوں میں بارشیں کم ہوتی تھی اب وہاں زیادہ ہوتی ہے اور جہاں زیادہ ہوتی تھی وہاں پر سیلاب اتے ہیں تو فصلیں زیادہ تباہ ہو گئی ہیں۔ موسموں کی تبدیلی کی وجہ سے فصلوں کا دورانیہ بھی چینج ہو گیا ہے گندم کی پیداوار پہلے ڈی ائی خان اور ٹانک میں زیادہ تھی جبکہ اب دیر اور چترال میں زیادہ گندم کی پیداوار ہوتی ہے۔ جنوب سے شمال کی طرف اب یہ پیداوار زیادہ ہو گئی ہیں اس طرح سبزیوں اور پھلوں کا موسم بھی تبدیل ہو گیا۔ فصلوں کا اپنا ایک لائف سائیکل ہے لیکن اب ان فصلوں کے لائف سائیکل میں تبدیلی اگئی ہے جیسے ہی یہ پکنا شروع ہوتے ہیں تو اس وقت بارشیں سیلاب اور ژالہ باری شروع ہوتی ہے۔
موسمیاتی تغیر کیا ہے؟
ایک علاقے کی آب و ہوا اُس کے کئی سالوں کے موسم کا اوسط ہوتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی اس اوسط میں تبدیلی کو کہتے ہیں۔ زمین اب بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے اور عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی ہمارے طرز زندگی کو بدل دے گی، جس سے پانی کی قلت پیدا ہو گی اور خوراک پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا۔
دنیا کو اس وقت جہاں کئی مسائل کا سامنا ہے وہی ایک بڑا مسئلہ موسمیاتی تبدیلی کا ہے۔ جو اس وقت بہت تیزی سے دنیا پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی زمین کی ماحولیاتی حالات میں تبدیلی کا نام ہے جو کہ اندرونی اور بیرونی عوامل کی وجہ سے ہوتا ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں میں موسمیاتی تبدیلی عالمی سطح پر خطرناک صورت اختیار کر رہی ہے اور آنے والے دور میں یہ دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ ہو گا۔ اس کا سب سے زیادہ اثر زمین پر اور زمین پر رہنے والی مخلوقات پر ہو رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کا پاکستان کی معیشت پر خاصا اثر پڑ رہا ہے، خاص طور پر زرعی شعبے میں، جو ملک کی 40 فیصد افرادی قوت کو ملازمت دیتا ہے۔
اقدامات
محمد اکمل کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے ایگریکلچر کو زیادہ بہتر بنانے کے لیے ایک کمیٹی بنائی تھی ان میں جتنے بھی افراد تھے ان کو تنخواہ بھی دی گئی تھی لیکن ان لوگوں نے کوئی خاص دلچسپی اس میں نہیں لی۔ حکومت نے بھی کوئی خاطر خواہ دلچسپی نہیں دکھائی اس لیے زراعت کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی نہ ہی زمینداروں کو موسمیاتی تغیر کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا گیا کہ ائندہ سال جب فصلوں کو اگایا جائے تو ان کو بارشوں اور سیلاب سے فصلوں کو کس طرح محفوظ رکھا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ گرمی کی شدید لہروں اور بن موسم بارشوں نے بھی پاکستان کی زرعی پیداوار کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب آنے والے برسوں میں صورتحال مزید ابتر ہونے کا امکان ہے۔ اگر غذائی عدم تحفظ سے نمٹنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے بر وقت اقدامات نہ کیے گئے تو نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ پاکستان کی بقا کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے معاملے سے تن تنہا حکومت نہیں نمٹ سکتی ، لہذا عوام کی مدد بھی ضروری ہے۔