انمول شیراز ؛ خیبرپختونخوا میں مذہبی ہم آہنگی کے لیے متحرک ایک مسیحی خاتون صحافی
ڈاکٹر مریم نورین
"خیبر پختونخوا دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ سے متاثرہ علاقہ ہے۔ کافی حد تک رجعت پسند ہونے کے باعث یہاں صحافیوں کو پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھانے میں بہت چلینجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صحافی انتہاپسندی سے جڑے ہوئے مسائل کے علاوہ خواتین کے حقوق پہ بات کرتے ہیں کہ ایسے ماحول میں خواتین کیسے رہتی ہیں اور اپنا سروائول کرتی ہیں اور اپنے آپ کو کس طریقے سے منوا رہی ہیں۔”
یہ کہنا تھا خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی انمول شیراز کا۔ انمول شیراز کا تعلق مسیحی برادری سے ہے۔ وہ ایک سماجی ورکر کے ساتھ ساتھ ایک صحافی بھی ہیں۔ اپنے بارے میں ان کا کہنا تھا ” چونکہ میرا تعلق کرسچین کمیونٹی سے ہے تو ظاہری بات ہے کہ آپ کا مذہب یا جو آپ کی شناخت ہوتی ہے وہ لوگوں کے لیے سوالیہ نشان بن جاتی ہے اور انہیں سماجی قبولیت نہیں ملتی لیکن الحمد للہ خیبر پختونخواہ میں کوئی بھی مذہبی اقلیتوں کا استحصال نہیں ہے اور ہر طرح کی مذہبی اقلیت کو پنجاب و سندھ کے مقابلہ میں برابر حقوق حاصل ہیں کیونکہ پنجاب میں کرسچین کا اور سندھ میں ہندووں کا مذہب کی جبری تبدیلی ہو رہی ہے۔ ایسا کوئی بھی واقعہ ابھی تک خیبر پختونخوا میں رپورٹ نہیں ہوا کہ کسی نے مذہبی اقلیت کے کسی مرد یا خاتون کو اس کے مذہبی عقیدے یا عبادت سے منع کیا گیا ہو یا جبرا ًتشدد کے ذریعے اس کا مذہب تبدیل کیا گیا ہو۔”
پرامن اور خوشحال مستقبل کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی ضروری ہے
انمول شیرازخیبر پختونخوا میں اقلیتی حقوق کی ایک اہم آواز ہیں۔ وہ معاشرے میں مسیحیوں، ہندوؤں اور دیگر اقلیتی گروہوں کی کاوشوں اور قربانیوں کو اجاگر کرتی ہیں، پاکستان کی ترقی میں ان کے برابر کردار پر زور دیتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ پرامن اور خوشحال مستقبل کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی ضروری ہے، اور وہ مختلف برادریوں کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے کے لیے فعال طور پر کام کرتی ہیں۔ انمول شیراز مختلف پیشہ وارانہ پروگراموں کی حصہ رہی ہیں۔ ان کا خاندان کاروبار کرتا ہے اور سیاست میں بھی متحرک ہیں۔
بین المذاہب ہم آہنگی بارے انمول شیراز کا کہنا تھا کہ انٹرفیتھ ہارمنی اس لیے ضروری ہے کہ یہ آپ کو سوسائٹی میں مل جل کر رہنے کا طریقہ بتاتی ہے۔ اس میں ایک دوسرے کو قبول کرنے پر زور دیا جاتا ہے کہ خواہ آپ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہو یہ آپ کا ذاتی مسئلہ ہے ، سوسائٹی میں لوگوں کے ساتھ انٹر ایکٹ کرنا یہ آپ کی کلچرل سوشل نارمز میں آ جاتا ہے تو انٹرفیتھ ہارمنی کا بیسک مطلب یہ ہے کہ آپ مل جل کے رہیں، مذہب پر آپ بیشک عمل کرتے رہیں لیکن جب آپ ایک سوسائٹی میں سماجی طور پر لوگوں کے ساتھ انٹر ایکٹ کرتے ہیں تو پھر وہ سوسائٹی آپ کو قبول کر لیتی ہے”
ہیروز آف خیبرپختونخوا ود انمول شیراز
انمول شیراز خیبرپختونخوا میں”ہیروز آف خیبرپختونخوا ود انمول شیراز کے نام سے ایک پروگرام چلاتی ہیں، اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ: ” اپنے اس پروگرام میں ہم لوگ یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لوگوں کے اندر یہ ایکسپٹنس پیدا کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پختونخوا خصوصا پشاور میں آپ آ جائیں توکیونکہ یہ آپ کا صوبائی دارالخلافہ ہے تو یہاں ہمارے پاس ایسےخواتین بھی ہیں ، ایسے نوجوان بھی ہیں اور بچے بوڑھے بھی یعنی ہر مذہب، ہر طبقے سے لوگ ہیں ہر عمر کے لوگ ہیں جو کہ سوسائٹی کو آگے بڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں. یہ علاقہ صرف دہشت گردی کے لیے مشہور نہیں ہے اور ہم نے صرف پشاور کو نہیں بلکہ اس علاوہ دوسرے علاقوں کو بھی ٹچ کیا ہے ہم اس پروگرام میں وزیرستان ، سوات سے لوگ لے کر آئے ہیں. سوات ایک وقت میں دہشت گردی کا گڑھ تھا تو اس پروگرام کے ذریعے میری اور میرے ادارے کی کاوش یہ ہے کہ ہم پختونخوا کا ایک پازیٹیو امیج نیشنلی اور انٹر نیشلی اور دوسرے صوبوں کو بتائیں کہ پختونخوا میں ہیروز بھی ہیں، اچھے لوگ بھی ہیں یہاں کام بھی ہو رہا ہے۔ خواتین کو حقوق بھی مل رہے ہیں اور ہمارے پاس ایسے ادارے بھی ہیں جو چمک دمک رہے ہیں ، صرف یہاں یہ نہیں کے کہ یہاں صرف طالبانائزیشن یا دہشت گردی ہے۔”
اس ادارے کی کاوش کے ذریعے جتنے بھی مختلف مذاہب کے لوگ ہیں ‘ خیبر پختونخوا سے ان کا تعلق ہے ان کو ڈھونڈنا، ان کی کو لانا سامنے ہائی لائٹ کرنا ایک بہت بڑا اقدام ہے یہ دکھانے کے لیے کہ مشکل حالات کے باوجود پاکستان کی مسیحی، ہندو اور دیگر برادری کے لوگ بھی اس سوسائٹی میں اپنا برابر کردار ادا کر رہے ہیں ، ان کے کنٹریبیوشن کو بھی فراخدلی سے تسلیم کیا جانا چاہیے اور انہیں قومی سطح پر اجاگر کیا جانا چاہیے۔ ان کو آگے بڑھنے میں بھرپور سپورٹ کرنا چاہیے تاکہ یہ لوگ بھی مزید بڑھ چڑھ کر پاکستان خاص طور پر خیبر پختونخواہ کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
پاکستان میں مسیحی برادری کو درپیش مسائل
پاکستان میں مسیحی برادری کو درپیش مسائل اور چلینجز سے متعلق انمول شیراز بتاتی ہیں کہ کرسچن کمیونٹی کو خیبرپختونخوا میں بظاہر طور پر وہ چلینجز درپیش نہیں ہیں جو پاکستان کے باقی علاقوں اور صوبوں میں انہیں درپیش ہیں۔
حالیہ برسوں میں ہونے والی ترقی کے باوجود، پاکستان میں اقلیتی برادریوں، بشمول مسیحیوں، کو گورنمنٹ اور پرائیویٹ بھرتیوں میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹے موجود ہیں، لیکن ان پر اکثر موثر طریقے سے عمل نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے اقلیتوں کی نمائندگی مختلف شعبوں میں کم رہ جاتی ہے۔اس کے علاوہ سرکاری نوٹیفکیشن میں صفائی ورکرز کی پوسٹوں کے ساتھ بطور شرط لکھا جاتا ہے کہ درخواست گزار اقلیتی برادری یا غیر مسلم ہوں۔ انمول شیراز کا کہنا ہے کہ یہ چیز اقلیتی برادریوں کے لیے باعث تکلیف اورباعث اعتراض ہے۔ اقلتیی برادریوں کے ساتھ یہ لیبل کیوں لگایا جاتا ہے؟ انمول شیراز کا ماننا ہے کہ یہ دقیانوسی سوچ کو مضبوط کرتا ہے اور اقلیتی برادریوں کے ارکان کے لیے دوسرے پیشوں کو اپنانے کے مواقع کو محدود کرتا ہے۔
اقلیتوں کو بااختیار بنانا اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینا
انمول شیراز کا کام اقلیتی برادریوں کو بااختیار بنانے اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے پر مرکوز ہے۔ وہ تعلیم، روزگار اور سیاست سمیت معاشرے کے مختلف شعبوں میں اقلیتوں کی نمائندگی میں اضافے کی وکالت کرتی ہیں۔ وہ مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان بات چیت اور تفہیم کو بھی فروغ دیتی ہیں۔
پاکستان میں اقلیتی برادریوں کے سامنے آنے والے چیلنجز سے نمٹنے اور ایک زیادہ جامع اور برداشت کرنے والے معاشرے کی تعمیر میں ان کی کوششیں اہم ہیں۔ ان کا اتحاد اور لچک کا پیغام بہت سے لوگوں کے ساتھ گونجتا ہے، جو انہیں سب کے لیے ایک روشن مستقبل کی طرف کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
پروگرامز اور تقریروں کا مقصد تمام خواتین کو بااختیار بنانا ہے
انمول شیراز اپنے تمام پروگراموں اور تقریروں میں اس بات پر زور دیتی ہیں کہ تمام خواتین، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہوں، خودمختار اور بااثر ہوں۔ آپ کا خیال ہے کہ ہمارا معاشرہ پدرشاہی ہے، لیکن قبائلی علاقوں میں خواتین کو بہت زیادہ احترام اور اختیار حاصل ہے۔ آپ کا ماننا ہے کہ ہمیں اپنی معاشرے کو بھی اس سمت لے جانا چاہیے۔
انمول شیراز اقلیتی برادری کی خواتین کے لیے ایک روشن مثال ہیں۔ وہ ایک باصلاحیت اور باہمت خاتون ہیں جو اپنے کام کے ذریعے اقلیتی برادری کی خواتین کے لیے ایک روشن مثال پیش کر رہی ہیں۔ انمول ان خواتین کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ وہ اپنے خوابوں کو پورا کریں اور اپنے معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لائیں۔