جب گھر مسمار کیا گیا تو ننگے پاوں نکل کر جان بچائی
خالدہ نیاز
جب میں سٹوڈنٹ تھی اس وقت سے سوشل ورک کا کام شروع کیا کیونکہ میرے آس پاس رہنے والے اقلیتی برادری کے لوگ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے اور ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں تھا۔
یہ کہنا ہے ضلع کرم پاڑہ چنار سے تعلق رکھنے والی ہندو برادری کی مالا کماری کا۔ مالا کماری کا کہنا ہے کہ جس وقت انہوں نے سوشل ورک کا کام شروع کیا اس وقت قبائلی اضلاع میں یہ کام آسان نہیں تھا اور وہ تھی بھی اقلیتی برادری کی خاتون لہٰذا اس کو کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
وہ کہتی ہے کہ محلے کے لیول پر اس نے اپنا کام شروع کیا اور ایک چھوٹی تنظیم بنائی البتہ وہ رجسٹرڈ نہیں تھی۔ مالا کماری نے بتایا کہ شروع میں انہوں نے علاقے میں موجود اقلیتی برادری کے لوگوں کو متحد کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی مشکلات کا حل ڈھونڈ سکیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس وقت یہ لوگ بہت غریب تھے۔ گھر میں ایک کمانے والا اور پندرہ بیس کھانے والے۔ جس کی وجہ سے وہ بنیادی سہولیات سے بھی محروم تھے۔ شروع میں میں ان کو چھوٹا موٹا قرضہ دیتی تھی جس سے وہ اپنی ضروریات پوری کرلیتے تھے، اس کے بعد ان کو جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا تو وہ مجھ سے ڈسکس کرتے، اگر ان کو اپنا کوئی مسئلہ پولیٹیکل ایجنٹ کے نوٹس میں لانا ہوتا تو میں ان کے لیے خط لکھتی تھی حالانکہ اور بھی بہت سارے پڑھے لکھے لوگ موجود تھے لیکن ان کو مجھ پر اعتماد ہوگیا تھا جس کی وجہ سے یہ میرے پاس آنے لگے تھے۔
مردہ فنڈ بااثر لوگوں کو ملتا تھا
مالا کماری نے کہا کہ یہ لوگ چرچ میں مردہ فنڈ کے لیے ماہانہ پیسے جمع کرتے تھے لیکن وہ با اثر لوگوں کو تو مل جاتے تھے جبکہ غریب اس سے محروم رہ جاتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہر خاندان سو روپے ماہانہ جمع کرے گا اور ایک ہزار روپے مالا خود جمع کریں گی تو اگر خدانخواستہ کسی کے گھر میں فوتگی ہوتی ہے تو یہ رقم ان کو آسانی سے مل جایا کریں گی جبکہ اگر کوئی بیمار ہوتا ہے اور اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے تو وہ بھی یہ فنڈ استعمال میں لا سکے گا۔
مالا کماری نے بتایا کہ اس کے بعد انہوں نے جاننے والوں سے بھی اس فنڈ میں پیسے دینے کی درخواست کی جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوئی اور اس سے کافی سارے ایسے مریضوں کا علاج کرایا گیا جو اس کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔
مسلم ملکان نے بہت حوصلہ افزائی کی
مالا کماری کہتی ہیں کہ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ علاقے کے مسلم ملکان نے دل کھول کر ان کی مدد کی اور حوصلہ افزائی بھی کی جبکہ مسیحی برادری کے بڑوں نے ان کی مخالفت کی کہ یہ لڑکی ہوکر کیوں اس طرح کام کررہی ہے، یہ تو سب کو ہندو کردیں گی۔ اس وقت پاڑہ چنار میں زیادہ تر مسیحی برادری کے لوگ تھے ہندو یہاں سے ہجرت کرچکے تھے۔ صرف مالا کماری کا گھرانہ وہاں موجود تھا۔
مالا کماری کہتی ہے کہ ان کے لیے قبائلی ضلع میں کام کرنا آسان نہیں تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اقلیتی برادری کے مردوں کی جانب سے ان کے خلاف طالبان کو خط لکھے گئے کہ یہ لڑکی مسیحیوں کو ہندو بنانا چاہتی ہے جس کے بعد ان کو طالبان کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کو دھکمی آمیز پیغامات موصول ہوئے ان کے کام کو روکا گیا لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ یہاں تک کہا گیا کہ اگر آپ پاڑہ چنار سے پشاور کی جانب سفر کریں گی تو آپ کو راستے میں مار دیا جائے گا۔ ان دھمکیوں کی وجہ سے میں اتنا ڈر گئی تھی کہ دو سال تک گھر سے نہ نکلی اور اس دوران میرا ایک امتحانی پرچہ میں غیرحاضری بھی لگی۔ مالا کماری نے بتایا۔
جب مالا کماری کا گھر مسمار کیا گیا
مالا کماری کہتی ہے کہ بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ کرنل کو کہہ کر ان کا گھر مسمار کروایا گیا یوں ہم سڑک پر آگئے۔ تب ان کے ادارے کے لوگوں نے ان کو چھت فراہم کی اور گھر کی ضروری اشیاء بھی فراہم کی کیونکہ یہ لوگ ننگے پاوں گھر سے جان بچا کر نکلے تھے۔ اس کے بعد میرے گھر والوں نے بھی مجھے بلیم کیا کہ تمہارے سوشل ورک کی وجہ سے ہم سے چھت چھن گیا ہے نہ تم لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کرتی اور نہ یہ سب کچھ ہوتا لیکن مجھے احساس ہوا کہ میں واقعی میں اچھا کام کررہی تھی جو ان لوگوں سے ہضم نہ ہوا۔ مالا کماری نے کہا۔
مالا کماری کہتی ہے کہ انہوں نے ہمت نہ ہاری اس کے بعد پاڑہ چنار میں ایک ٹیوشن سنٹر قائم کیا اور دو سال تک نہ صرف ٹیلرنگ کا کام کیا بلکہ ٹیوشنز بھی پڑھائی اور اپنا ذاتی گھر خرید لیا۔
کامیابی کا سفر
ٹیوشن سنٹر اور ٹیلرنگ سے وہ کافی اچھی کمائی کرنے لگی تھی جس کے بعد انہوں نے کرسچن بچوں کی پڑھائی میں مدد کی۔ ایسے بچے جو پڑھنا چاہتے تھے لیکن وہ غربت کی وجہ سے نہیں پڑھ سکتے تھے ان کی مالی مدد شروع کی تاکہ وہ بھی تعلیم حاصل کرسکے۔
مالا کماری نے بتایا کہ اس کے بعد وہ پشاور منتقل ہوگئی کیونکہ میں کمیونٹی کے لیے کچھ بڑا کرنا چاہتی تھی جو پاڑہ چنار میں رہ کر ممکن نہ تھا۔ میں نے خود بیوٹی سیلون میں تین مہینے تک ٹریننگ لی اور اس کے بعد اپنا ایک بیوٹی سیلون کھولا، اس کے بعد پاڑہ چنار سے لڑکیوں کو بلوایا اور ٹرین کرنے کے بعد دوبارہ بھیج دیا تاکہ وہ وہاں ایک چھوٹا سا سیٹ اپ شروع کرکے کمائی کرسکیں۔
مالا کماری نے کہا کہ پشاور منتقل ہونے کے بعد انہوں نے عوامی نمائندوں سے بھی اقلیتی برادری کے حقوق کی بات کی لیکن بہت کم لوگوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی تاہم اپنی محنت کے بل بوتے پر وہ آج وومن کمیشن خیبرپختونخوا، ڈی آر سی پشاور اور اوقاف مائنارٹی بورڈ کی بھی ممبر ہے۔ آج ان کے اپنے برانڈز ہے اور اپنا بزنس سیٹ اپ ہے۔
انہوں نے کہا کہ مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے انہوں نے ایک ٹیم بنائی ہے جس میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہے۔ ان کے بزنس کا 25 فیصد آمدن چیریٹی کے لیے مختص ہے۔
مالا کماری کا کہنا ہے کہ خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے وہ کوشاں ہے اور دھمکیوں کے باوجود چاہے دن ہو یا رات وہ مشکل میں گری خواتین کا ساتھ دیتی ہے۔ مالا کماری کو کئی نیشنل اور انٹرنیشنل ایوارڈز ملے ہیں۔