بلاگزلائف سٹائل

عورت سسرال کو گھر بناتے بناتے اکثر اپنا آپ کھو دیتی ہے

 

سندس بہروز                                                                     

اکثر ہم نے دیکھا ہے کہ شادی کے بعد عورت کے شوہر کے گھر کو اس کا آخری گھر سمجھا جاتا ہے۔ اس کو پہلے سے بتا دیا جاتا ہے کہ سسرال میں چاہے کیسے بھی حالات ہو، تم نے ہی گزارا کرنا ہے اور برداشت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دینا چاہے حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہو۔ ضروری نہیں کہ اس کو یہ بات صاف الفاظ میں کہی جائے، اظہار رائے کے اور بہت سے طریقے آزمائے جاتے ہیں۔

شاید یہی وجہ ہوتی ہے کہ عورت اس گھر کو اپنا گھر بنانے کے لیے تن، من، دھن کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتی۔ سسرال کو گھر بناتے بناتے اکثر اپنا آپ کھو دیتی ہے۔ اپنے عزت نفس سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔  یہاں تک کہ اپنے وقار کی قربانی دے دیتی ہے۔ شاید اس لیے جب اس کے بچوں کی تربیت کا وقت آتا ہے اور جب اس کو اپنے بچوں کو سر اٹھا کر وقار سے جینے کا سبق دینا ہوتا ہے تو وہ بھول چکی ہوتی ہے کہ سر اٹھا کر وقار سے جیا کیسے جاتا ہے۔

اگر اس سب سے تنگ آ کر وہ اپنی عزت نفس کا دامن بچانا چاہتی ہے تو یہی معاشرہ اس کے بچوں تو اس کے خلاف استعمال کرتی ہے اور ان کی پرواہ کرنے کو کہتی ہے اور ان کا واسطہ دے کر ان کو سب برداشت کرنے کا درس دیتی ہے۔

ایسا ہی ایک واقعہ میرے گاؤں میں پیش آیا۔ شادی کے بعد اچانک ہی بیوی کو اندازہ ہوا کہ یہ ماحول  اس کے گھر کے ماحول سے کافی مختلف ہے اور یہاں زندگی گزارنے کے لیے ان کو بہت سی قربانیاں دینی پڑیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے لیے زندگی کافی آسان ہوتی  اگر ان کا شوہر ان کا ساتھ دیتے مگر وہ بھی غصے کے تیز نکلے۔ پہلے پہل تو ان کا غصہ اور مارپیٹ صرف کمرے ہی تک محدود تھا مگر بعد میں بات کمرے کی چار دیواری سے باہر نکل ائی اور اب وہ سب کے سامنے ذلیل ہونے لگی۔ اولاد کی امید نظر آئی تو انہوں نے سوچا شاید بچوں کے بعد حالات ٹھیک ہو جائیں مگر بے سود۔ تین چار سال بعد جب ان کے بچے چیزوں کو سمجھنے لگے تب ایک روز ان کے شوہر کو کسی بات پر غصہ آیا اور انہوں نے بچوں کے سامنے بیوی کو مارنا شروع کیا۔ بچے ماں کی تکلیف دیکھ کر رونے اور تڑپنے لگے۔ اس دن اس خاتون نے فیصلہ کیا کہ اب بس۔ وہ اب اور نہیں بگتے گی۔ جب انہوں نے اپنے شوہر سے طلاق لینے کا سوچا تو یہی معاشرہ ان کو بے حس کہنے لگا۔ کیونکہ لوگوں کا خیال تھا کہ ان کو اپنے بچوں کی خاطر سب برداشت کرنا چاہیے تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ میں نے طلاق کا کڑوا گھونٹ اپنے بچوں کی خاطر ہی برداشت کیا ہے۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میرے بچے ایسے کشیدہ ماحول میں پرورش پائیں جہاں ان کی ماں ہفتے میں تین چار بار مار کھاتی ہیں اور وہ یہ دیکھ کر تڑپتے ہیں۔

مجھے تو ان کا فیصلہ ٹھیک لگا۔ جو شخص اپنی بیوی کو عزت نہیں دے سکتا وہ اپنے بچوں کی کیا خاک تربیت کرے گا اور  ایسے ماحول میں پرورش پانے والے بچے کیا خاک فائدہ مند اور بہترین شہری بن پائیں گے۔ بلکہ ایسے ماحول میں بچے خود بہت سارے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوں گے۔

مجھے تو لگتا ہے کہ ان کی ماں کی اس مشکل فیصلے سے کم از کم ان کو ایک پرسکون بچپن تو ملے گا۔ اور بچپن کی اس مضبوط بنیاد کی بنا پر وہ بہتر انسان بن پائیں گے۔

آپ کو کیا لگتا ہے؟

سندس بہروز انگریزی میں ماسٹرز کر رہی ہیں اور ساتھ ہی سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button