پاکستان کا وہ علاقہ جہاں بیوی شوہر کو طلاق دے سکتی ہے
گل حماد فاروقی
عام طور پر ہمارے معاشرے میں مرد بیوی کو طلاق دیتا ہے اور اگر میاں بیوی کے آپس کا تعلقات خراب ہو تو بیوی کو اس سے جان چھڑانے کیلیے بڑے پاپڑ بھیلنے پڑتے ہیں۔ اسے یا تو جرگہ کے ذریعے نجات مل سکتی ہے یا پھر عدالت سے رجوع کرکے خلع لیتی ہے اور اس صورت میں عورت کا حق مہر اسے پورا نہیں ملتا۔ ہاں اگر مرد عورت کو طلاق دے تو پھر اسے پورا حق مہر مل سکتا ہے۔ مگر پاکستان میں ایک ایسا علاقہ بھی ہے جہاں عورت مرد سے نہایت آسانی کے ساتھ نجات پاسکتی ہے یعنی بیوی اپنے شوہر سے آزاد ہوسکتی ہے۔ عام طور پر اسے طلاق سے جوڑا جاتا ہے مگر یہاں طلاق کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ چترال کے پہاڑوں کے دامن میں رہنے والے کیلاش قبیلے کی خواتین کو کچھ زیادہ بشری حقوق اور آزادی حاصل ہے وہ جب چاہے تو اپنے شوہر سے آزاد ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ہماری ٹیم نے کیلاش کے مختلف خواتین و حضرات سے بات کی مگر اکثر لوگ بات کرنے سے کتراتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ اگر ان کا نام میڈیا میں آگیا اور لوگوں کو پتہ چلا کہ اس نے اپنے پہلے والے شوہر سے آزادی حاصل کرکے دوسرے شوہر سے شادی کی ہے تو اسے کچھ زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
ایک معمر خاتون مکائی جن کے پوتے اور نواسے بھی ہیں کا کہنا ہے کہ مجھے یہ کہتے ہوئے کوی عار محسوس نہیں ہوتا کہ میرے والدین نے میری شادی ایک ایسی جگہ کی تھی جہاں میرا دل نہِںں لگا اور میرا شوہر بھی مجھے پسند نہِیں تھا۔ مجھے میرے موجودہ شوہر سے دل لگی ہوگئی اور میں نے اس سے شادی کرنے کا اظہار کیا جو اس نے بخوشی قبول کیا۔ اس نے میرے پہلے شوہر کو تاوان کی ادایگی کی اور خوشی خوشی مجھ سے شادی کرکے مجھے اپنے گھر لے ایا۔
کیلاش وادی برون گاوں میں رہنے والی کیلاش خاتون شاہرہ بی بی جس نے انٹرنیشنل ریلیشن میں ماسٹر کیا ہے۔ اس نے بتایا کہ پہلے زمانے میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ والدین اپنے بچیوں کی مرضی کے بغیر یا ان سے پوچھے بغیر ان کی شادی کیا کرتے تھے جو اکثر ناکامی سے دوچار ہوتی تو اس خاتون کو اگر کوئی دوسرا من پسند شوہر ملتا یا کسی مرد سے اس کی دل لگی ہوتی تو وہ اپنے پہلے والے شوہر سے نکل کر دوسرے مرد سے شادی کرتی۔ مگر اس شرط پر کہ اس کے پہلے والے شوہر کا اس کی شادی سے لیکر اس وقت جتنا بھی خرچہ آیا ہوا ہے اس خاتون کا دوسرا شوہر اس کے پہلے شوہر کو دگنی ادائیگی کرے گا۔ اسی طرح اگر اس عورت کو کوئی تیسرے مرد سے دل لگی ہوجائے تو وہ اس کے ساتھ آسانی سے شادی کرسکتی ہے اور اسی شرط پر کہ اس کا تیسرا شوہر اس کے دوسرے شوہر کو اس کے خرچے کا دگنی ادایگی کرے گا جو کل لاگت کا چار گنا بن جاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اب وہ حالات نہیں رہے کیلاش لڑکیاں اپنے سالانہ مذہبی تہواروں مِیں من پسند لڑکے کے ساتھ اپنی بستی سے نکل کر ان کے گھر جاکر شادی کرلیتی ہے جسے مسلمان لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ گھر سے بھاگ گئی ہے۔
اس نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ بھی اگر کیلاش لڑکی کو اپنے کمیونٹی مِیں کوئی لڑکا پسند آئے تو والدین کو راضی کرکے اس سے آسانی کے ساتھ شادی کرسکتی ہے۔ زومیرہ نامی ایک کیلاش خاتون کی اپنے شوہر سے ہم آہنگی نہیں ہوئی۔ اس نے اپنے شوہر کو چھوڑا اور اپنے شوہر کو اس کا جتنا خرچہ آیا تھا اس کی ادائیگی کی۔ یہاں ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ جب کیلاش لڑکی اپنے شوہر کو چھوڑ کر اپنے میکے یعنی باپ کے گھر بیٹھ جائے تو اس کے شوہر کا اگر ایک لاکھ روپے خرچہ آیا ہو اس کا باپ اسے ایک لاکھ روپے ہی دے گا۔ اگر اس نے کسی دوسرے مرد سے شادی کرنا چاہی اور پہلے والے شوہر کو چھوڑا تو اس صورت میں اس کا دوسرا شوہر اس کے پہلے شوہر کو دگنی ادایگی کرے گا۔
لوک رحمت کیلاش جو صوبائی اسمبلی کیلیے آزاد امیدوار کی حیثیت سے قسمت آزمائی کرچکا ہے اور مقامی طو رپرایک ویب سایٹ بھی چلارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اس پر بہت کام کیا ہے۔ اس میں یوں ہوتا ہے کہ اگرکسی عورت کو اپنا شوہر پسند نہ آیے اور دوسرے مرد سے شادی کرنا چاہے تو اس کا دوسرا شوہر پہلے والے شوہر کو دگنی ادایگی کرے گا مگر یہ چیز اچھی تصور نہیں ہوتی۔ اسے مقامی زبان میں جیس مال بھی کہتے ہیں۔
اگر کسی عورت کے بچے بھی ہو مگر شوہر کے ساتھ ناچاقی ہو تو اپنے والد کے گھر بیٹھ کر اس کا والد اس کے شوہر کو سنگل ادایگی کرے گا۔
سابق معاون خصوصی برائے اقلیتی امور وزیر زادہ کیلاش کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے مگر آجکل ایسے کیس بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ میریج بل ہمارے دور مِیں صوبائی اسمبلی میں پیش ہوا تھا اور اس پر ابھی مزید کام ہورہا ہے تاکہ کیلاش خواتین کو شادی بیاہ کے معاملات میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ ہو۔اس بل کو لوکل گورنمنٹ کے ذریعے آگے لایا جائے گا مگر محکمہ قانون نے اس پر کچھ ابزرویشن لگاکر واپس کیا ہے انہیں دور کرکے اسے دوبارہ بھیج دیا جایے گا اور اس کے پاس ہونے پر کافی سارے اس قسم کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
سیدہ گل کیلاش نے آرکیالوجی میں ماسٹر کیا ہے اس کا کہنا ہے کہ کیلاش لوگوں کے بارے مِیں اکثر منفی باتیں پھیلائی جاتی ہیں جو کہ حقیقت میں کچھ بھی نہیں ہوتی۔ تاہم کیلاش خواتین کو پوری آینی اور بشری حقوق اور مکمل آزادی حاصل ہے اور اسے اپنا شوہر پسند نہ آئے تو وہ آسانی سے دوسرے مرد سے شادی کرسکتی ہے۔
عبدالخالق کیلاش جو ہوٹل ایسوسی ایشن کا صدر بھی ہے ان کے ہوٹل میں کئی کیلاشی خواتین موجود تھیں ان میں ایسی خاتون بھِی تھی جس کے ساتھ اس قسم کا واقعہ پیش ایا تھا۔ اس نے نام نہ بتانے کی شرط پر ہماری ٹیم کو بتایا کہ میری شادی بہت پچپن میں ہوی تھی مگر میرا شوہر مجھ سے عمر مِیں زیادہ تھا اور ہماری آپس کے تعلقات بھی اچھے نہیں تھے۔ اکثر اوقات ناچاقی پیدا ہوتی تھی جس سے میں تنگ آچکی تھی۔ اتفاق سے مجھے میرے پڑوس میں ایک اور لڑکا اچھا لگا اور وہ بھی مجھے پسند کرنے لگا۔ ہم نے آپس مِیں طے کیا کہ میں شوہر کے گھر سے بھاگ کر تمھارے گھر اوں گی اور تم مجھ سے شادی کروں وہ تیار ہوا۔ جب پہلے شوہر کو پتہ چلا تو میرے دوسرے شوہر نے اس کو تاوان کے طور پر دگنی ادایگی کردی جتنا اس کا شادی پر خرچہ ایا تھا۔
کچھ بھی ہو مگر کیلاش قبیلے کے لوگ ہزاروں سالوں سے ان پہاڑوں کے دامن مِیں آباد ہیں جن کی مخصوص ثقافت اور مختلف تہواروں کے علاوہ کئی رسومات نہایت دلچسپی کے حامل ہیں۔ ان کی خواتین پر کوئی ایسی پابندی نہیں لگائی جاسکتی کہ ایک ہی شوہر کے ساتھ زندگی بھر رہے۔ اگر ان کی آپس میں ناچاقی پیدا ہوجائے تو وہ بخوشی اپنی مرضی سے کسی دوسرے مرد کے ساتھ شادی کرسکتی ہے اور دوسرے معاشرے کے لوگوں کی طرح اس پر کوئی تنازعہ یا لڑای جگھڑا بھی پیدا نہیں ہوتا۔