سونے کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟
آفتاب مہمند
گزشتہ کئی روز سے سونے کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان جاری ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر قیمتوں میں اضافے سے ایک طرف اگر خریدار پریشان ہیں تو اسی طرح خود صراف بھی مشکلات سے دو چار ہیں۔ پشاور کے صرافہ بازار میں حالیہ نرخ کے مطابق پاونڈ پاسہ کی قیمت 2 لاکھ 20 ہزار روپے فی تولہ مقرر ہے جبکہ ایک تولہ پاسہ کی قیمت 2 لاکھ 30 ہزار روپے تک پہنچ گئی۔
سونے کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجوہات معلوم کرنے کیلئے رابطہ کرنے پر خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی مارکیٹ، پشاور کے صرافہ بازار کے صدر حاجی شیر فرزند، سنئیر نائب صدر الحاج فرہاد احمد صراف اور جنرل سیکرٹری عبدالوہاب نے ٹی این این کو بتایا کہ ڈالر کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، سٹاک ایکسچینج کی صورتحال، ملکی سیاسی صورتحال، روپے کی قدر، ملکی خراب معیشت، بے تحاشا مہنگائی جیسے عوامل کا براہ راست اثر سونے کی قیمتوں پر بھی پڑتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر سونے کا کاروبار چونکہ ڈالر میں کیا جاتا ہے لہذا ڈالر کی قیمتوں کا سونے پر براہ راست اثر رہتا ہے۔ جب بھی ڈالر کی قیمت بڑھ جاتی ہے یا کمی آتی ہے تو اسی مناسبت سے سونے کی قیمتوں میں بھی اتار چڑھاو آتا رہتا ہے، جسکا اثر ہمارے جیسے ممالک اور یہاں کی تمام مارکیٹس پر آن پڑتا ہے۔ چونکہ ڈالر کی قیمت ایک جگہ پر نہیں رہتی اسی وجہ سے سونا بھی کبھی مہنگا ہوتا ہے تو کبھی اسکی قیمتوں میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔
صرافہ بازار کے عہدیداروں کے مطابق ہمارے ملک میں سونے کے کاروبار و قیمتوں کا انحصار سٹاک ایکسچینج پر بھی رہتا ہے۔ جب بھی سٹاک ایکسچینج میں مثبت رجحان ہوتا ہے تو سونے کی قیمتوں میں ضرور فرق آتا ہے لیکن جب مندی کا رجحان رہتا ہے تو یقینا سونے کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ پشاور کے صرافہ بازار میں عموما دوبئی اور سعودی عرب سے سونا آتا ہے، ضرورت پڑ جانے پر لاہور، کراچی سے بھی منگوایا جاتا ہے۔ لہذا یہاں کی مارکیٹ کا انحصار ان ممالک کے مارکیٹوں پر بھی ہوتا ہے۔
انکا مزید کہنا ہے کہ آج کل شادیوں کا سیزن بھی چل رہا ہے لیکن حالت یہ ہوگئی ہے کہ آج سے 10 سال قبل خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں کے لوگ شادی کے موقع پر 5 سے 10 تک تولے سونا اگر بناتے تھے تو اب وہ دو تولے سونا بھی نہیں بنا سکتے۔ صرف شادیوں کے مواقع پر نہیں، خوشیوں کے دیگر تقریبات پر بھی لوگ سونا بنانے تھے لیکن اب ایسا ممکن نہیں رہا۔ اسی طرح کئی لوگ کسی کو بھی بطور گفٹ سونا دیتے تھے لیکن اب کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ پہلے علاقائی ڈیزائنز کے علاوہ بھی صاحب استطاعت لوگ دوبئی یا سنگاپور طرز کے سیٹس یا مختلف ڈیزائنز بناتے تھے لیکن اب اسکا بنانا تو ایک خواب ہی بن کر رہ گیا۔
صرافہ بازار میں 10 سال قبل خریداری کی غرض سے اگر ماہانہ 1000 ہزار لوگ آتے تھے تو اب 100 بھی نہیں آرہے۔
جب لوگ بازار ہی نہیں آرہے تو ہم لوگ دن پھر گاہک آنے کی تلاش میں راہ دیکھتے رہتے ہیں۔ ایسے میں
دوکانوں کے کرایے بڑھ گئے ہیں، بجلی بلوں میں اضافہ ہو چکا ہے، سونا بنانے والے مختلف آلات کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، استاد اور شاگردوں کے معاوضے بڑھ گئے ہیں۔ سب سے بڑھ کر بات مختلف ٹیکسز کی، ٹیکسوں کی تو بھر مار ہے۔ ایسے میں صرافہ بازار کے سینکڑوں کاروباری حضرات اور دوکاندار صرافہ بازار چھوڑ کر کوئی رکشہ چلا رہا ہے تو کسی نے چھوٹا سا کریانہ سٹور کھول دیا ہے۔
یہاں پہلے کسی بھی ایک دوکان میں دوکاندار، دو تین استاد اور کم ازکم 5 شاگرد (کاریگر) کام کرتے تھے لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ زیادہ تر دوکانداروں نے اضافی استاد و شاگرد فارغ کردیئے ہیں۔ بس ایک ہی استاد اور زیادہ سے زیادہ دو شاگردوں سے کم چلایا جارہا ہے۔ جو شاگرد ( کاریگر) تھے وہ بچارے تو اب ریڑھی لگا کر محنت مزدوری کر رہے ہیں۔
پشاور سے تعلق رکھنے کامران علی، شاہد خان، محمد سہیل، فیض اللہ و دیگر نے ٹی این این کو بتایا کہ یہاں کی مارکیٹ میں پورے صوبے کے لوگ آتے رہتے ہیں لیکن اب لوگوں کی قوت خرید چونکہ جواب دے چکی ہے لہذا ماضی کی نسبت اسمیں 70 فیصد سے زائد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ لوگ اپنے لئے دو وقت کی روٹی کا بندوست کریں گے یا سونا خریدیں گے۔
بطور شہری وہ دیکھ رہے ہیں کہ اب تو لوگ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے سونا فروخت کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مارکیٹ میں لینے والے کم اور خریدنے والے زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ کئی ایسے لوگ بھی ہیں جو ضروریات کو پورا کرنے کیلئے نقصان پر بھی سونا فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر یہ صورتحال رہتی ہے تو لوگ سونا خریدنا بھول جائیں گے اور رشتے کرتے وقت سب سے پہلے یہ مطالبہ کریں گے کہ وہ سونا نہیں بنا سکتے لہذا یہ شرط ہی ختم کی جائے۔