ایک لباس پر ہجوم اکٹھا کرنے والی قوم کس طرٖف جارہی ہے؟
سندس بہروز
شیکسپیئر کے ڈرامے "جولیس سیزر” میں جب سیزر کی جان لینے کی سازش ہوتی ہے تو بروٹس، اس کا بہترین دوست اور جنرل بھی اس میں شامل ہوتا ہے۔ مرتے وقت سیزر کے آخری الفاظ "بروٹس یو ٹو” یعنی "بروٹس تم بھی” تھے۔ یہی آج کل ہمارے ملک کے حالات ہیں۔ سیاسی واقعات سن کر تو دکھ ہوتا ہی ہے مگر دل اس وقت مایوس سا ہو جاتا ہے جب عوام بھی بروٹس کا کردار ادا کر رہی ہوتی ہے۔ جو کہ سامنے سے تو ملک کے وفادار اور مخلص دکھائی دیتے ہیں مگر اصل میں وہ بھی حالات کو بگاڑنے میں اپنا کردار ادا کرنا نہیں بھولتے۔
کوئی اسلام کا جھنڈا لیے نفرت پھیلا رہا ہوتا ہے تو کوئی نسل کی بنیاد پر، کسی کو سماجی کلاس کی فکر کھائی جا رہی ہے تو کوئی سیاست کو تفرقہ پھیلانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
چند دن پہلے لاہور میں ایک واقعہ پیش آیا۔ میں تو اس کو واقعہ نہیں سانحہ سمجھتی ہوں۔ لاہور کے بازار میں ایک خاتون ایسا لباس زیب تن کئے ہوئے تھی جس پر عربی کے الفاظ لکھے ہوئے تھے۔ وہ ایک ریسٹورنٹ میں اپنے شوہر کے ساتھ آئی ہوئی تھی۔ اتنے میں لوگوں نے شور مچا دیا کہ اس خاتون کے لباس پر قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک مشتعل ہجوم اکٹھا ہوا اور نعرے بازی شروع ہو گئی۔ اس میں یہ آواز بھی آئی کہ اس کو مار دیتے ہیں کیونکہ ایک شخص کے پاس پستول بھی تھی۔
اتنے میں پولیس آئی اور معاملات کو سلجھانے لگی۔ ہجوم اتنا بڑا تھا کہ اس میں خاتون کو باحفاظت وہاں سے نکالنا محال ہو گیا تھا مگر اے ایس پی شہربانو نے حالات کو سنبھالتے ہوئے لوگوں کو بتایا کہ تحقیق کا حق اور تلقین تو اسلام بھی کرتا ہے، ہمیں تحقیق کر لینے دیجئے۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ اس خاتون نے عربی برینڈ کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا جس پر عربی زبان میں لکھے ہوئے الفاظ کا مطلب پیار، انسانیت،خلوص وغیرہ تھا۔
سلام ہو ہماری قوم پر جنہوں نے عربی لکھی ہوئی دیکھی اور اس کو قرآنی آیات سمجھ بیٹھے۔ یا تو ان لوگوں نے کبھی قران کی تلاوت نہیں کی یا یہ عربی کو بطور زبان نہیں جانتے۔ یعنی کہ ہماری قوم میں جہالت کی انتہا ہے یہ اور بات کا بتنگڑ بنانے میں تو ہم ویسے بھی بہت ماہر ہیں کہ اتنی چھوٹی سی بات پر ایک بڑا ہجوم جمع ہوا۔ نعرے بازی شروع ہو گئی اور بات مرنے مرانے تک پہنچ گئی۔ اس سے بڑی جہالت اور کیا ہوگی۔
باقی اسلام کے فرائض ہمیں یاد نہیں ہوں گے۔ والدین اور رشتہ داروں کے حقوق ہم بھول چکے ہیں، مسجد کی شکل تو مہینوں گزر چکے ہم نے نہیں دیکھی مگر ایک خاتون اگر عربی خطاطی لباس پہن کر اگر گھر سے باہر ائے گی تو اس پر ہم شور مچا دیں گے کیونکہ وہاں ہمیں خود کو سچا مسلمان ثابت کرنا ہے۔
کیا اسلام ہمیں دوسرے مسلمانوں کا دل دکھانے اور انکو قتل کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ کیا بس اتنا ہی اسلام ہے ہم میں؟ کیا ہم میں سوچنے، سمجھنے، محسوس کرنے کی صلاحیت ختم ہوتی جا رہی ہیں یا ہو چکی ہیں؟ کیا ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں؟
سندس بہروز انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کر رہی ہیں اور سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں۔
نوٹ۔ ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔