"افغانستان واپسی کا مطلب موت ہے”، افغان خواجہ سرا
رفاقت اللہ رزڑوال
پشاور ہائی کورٹ نے افغان خواجہ سراؤں کو ملک بدر اور ہراساں نہ کرنے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے جواب طلب کر لیا ہے۔ تاہم افغان خواجہ سراؤں کا کہنا ہے کہ افغانستان جانے سے اُن کی جانوں کو شدید خطرہ ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ خود کو طالبان کے حوالے کرے۔
پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس شکیل احمد اور جسٹس وقار احمد پر مشتمل دو رُکنی بنچ نے 16 افغان خواجہ سراؤں کو وطن واپس بھیجنے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔
افغان خواجہ سراؤں کے وکیل ممتاز احمد نے ٹی این این کو بتایا کہ 10 اکتوبر 2023 کو وفاقی حکومت نے غیر ملکیوں کے واپسی کا حکم جاری کیا تھا جن میں بیشتر افغان مہاجرین نے وطن واپسی کا عمل شروع کیا مگر افغانستان میں امارات اسلامی کی حکومت سے خواجہ سراؤں، فنکاروں اور میڈیا کے کارکنوں کی جانوں کے خطرے کا اندیشہ ہے جس سے بچنے کیلئے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی گئی تھی۔
ایڈوکیٹ ممتاز نے بتایا کہ افغانستان سے انخلاء کے بعد اقوام متحدہ کمیشن برائے افغان مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے ساتھ رجسٹرڈ درجنوں خواجہ سراؤں نے پاکستان میں پناہ لی ہوئی ہے۔ یو این ایچ سی آر کو حکومت پاکستان نے 1903 کے ایگریمنٹ کے تحت اختیار دیا ہے کہ ان کے پاس جو بھی افغان شہری رجسٹرڈ ہے انہیں قانونی حیثیت دی جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ اسی نقاط پر انہوں نے رٹ دائر کرکے عدالت سے استدعا کی ہے کہ حکومت ان کی قانونی حیثیت تسلیم کرکے انہیں ہراساں نہ کرنے کی ہدایت جاری کرے۔ درخواست کو عدالت نے فنکاروں کو ملک بدر نہ کرنے کے فیصلے کے ساتھ منسلک کرکے وفاقی حکومت سے جواب طلب کر لیا۔
ایڈوکیٹ ممتاز احمد نے بتایا "افغان طالبان نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی حکومت میں میڈیا، فنکاروں اور خواجہ سراؤں کو نہیں چھوڑیں گے بلکہ آپ نے بہت سارے ایسے واقعات دیکھیں ہونگے جس میں ان طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ذبح کیا گیا ہے تو اسی خوف سے بچنے کیلئے وہ یہاں پر پناہ لے کر پرامن زندگی گزارنا چاہتے ہیں”۔
ممتاز نے مزید بتایا "معزز عدالت نے خواجہ سراؤں کوتنگ نہ کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہین اگر اس کے بعد بھی پولیس خواجہ سراؤں کو تنگ کر رہی ہے تو یہ غیرقانونی عمل ہوگا لیکن ہم نے بہت سے کیسز میں پولیس کو عدالتی احکامات دکھائے ہیں جس پر عمل ہوا ہے”۔
پاکستان کے وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں 15 اگست 2021 کے بعد پاکستان میں تقریباً 6 لاکھ افراد داخل ہوئے تھے جن میں تقریباً 2 لاکھ 86 ہزار سے اوپر افراد واپس جاچکے ہیں۔
ہائی کورٹ میں سماعت کے بعد افغان مہاجر خواجہ سراء حوریا نے ٹی این این کو بتایا کہ سقوط افغانستان کے بعد تقریباً 43 خواجہ سرا پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں موجود ہیں جن کے پاس رجسٹریشن بھی ہے مگر حکومت پولیس کے ذریعے ان پر ملک بدر ہونے کیلئے دباؤ ڈال رہی ہیں۔
حوریا نے بتایا "افغانستان واپسی کا مطلب موت ہے کیونکہ وہاں پر خواتین کے حقوق کا کوئی خیال نہیں، مردوں کی حقوق کا خیال نہیں تو خواجہ سراؤں کو کیا تحفظ ملے گا، اب تو ہمیں لگ رہا ہے کہ وہاں پر جانے کے بعد ہماری موت یقینی ہے”۔
انہوں نے بتایا "جب سے میں پاکستان آئی ہوں تب سے میں پولیس کی خوف سے کسی بھی پروگرام پر نہیں گئی ہوں اور مفکورہ میں زندگی گزار رہی ہوں، مجھے اپنی کمیونٹی کے لوگ سپورٹ کر رہے ہیں، مشکل سے جی رہی ہوں، ہمیں اتنا موقع تو دیں تاکہ یو این ایچ سی آر ہمارے بیرون ملک جانے کا فیصلہ کرے”۔
تاہم پاکستانی شہری خواجہ سرا بھی پاکستان کو ان کے لئے محفوظ نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں پروگراموں سے واپسی پر انہیں قتل کیا جا رہا ہے یا پولیس انہیں بے جا تنگ کر رہے ہیں۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کی کارکن ماہی خان جو خود ایک خواجہ سرا ہے، کہتی ہے پاکستان میں گزشتہ 15 سالوں کے دوران 125 خواجہ سرا قتل کئے جاچکے ہیں جبکہ سینکڑوں کو زخمی ہونے کے رپورٹس انکے پاس موجود ہیں۔
انہوں نے ہائی کورٹ میں سماعت کے بعد ٹی این این کو بتایا "لفظ ٹرانسجینڈر جب آتا ہے تو ان کے مسائل ایک جیسے ہوتے ہیں چاہے وہ پاکستان کا ہو یا افغانستان کا مگر پاکستانی شہری خواجہ سراؤں کو فائدہ یہ ہے کہ وہ آزاد گھوم سکتے ہیں اور افغانی خواجہ سرا اس حق سے محروم ہے لیکن ظلم اور تشدد جیسے مسائل کا سب کو سامنا ہے”۔
ماہی خان کہتی ہے کہ اب افغان خواجہ سراؤں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں پر مسلط کردہ حکومت ہی ان کے ماننے سے انکار کرتی ہے تو اسی وجہ سے ہم حکومت اور محکمہ پولیس سے اپیل کرتے ہیں کہ تب تک انہیں تنگ نہ کرے جب تک یو این ایچ سی آر انہیں بیرون ممالک کے کیسز نہ نمٹائیں۔
عدالت نے پندرہ دن کے اندر اندر وفاقی حکومت سے جواب طلب کرکے درخواست اگلی سماعت تک کیلئے ملتوی کر دی۔