لائف سٹائل

بہتر مستقبل کی خاطر طاہر اللہ نے کیسے زندگی داو پر لگا دی

 

شاہ خالد شاہ جی

خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ کے تحصیل خار کے گاؤں غنی آڈئی کے رہائشی 65 سالہ ٹیکسی ڈرائیور آمیر طاؤس  خان موبائل کال پر  آفسردہ لہجے میں اپنے 19 سالہ جوان بیٹے طاہراللہ کے غیرقانونی طریقے سے یورپ جانے کے سفر اور لیبیا  میں لاپتہ ہونے کے ناخوشگوار واقع کے بارے میں تفصیلات بتارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بتائے بغیر آٹھ  ماہ  پہلے طاہر اللہ نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ یورپ جائینگے۔ گھروالوں سے چھپکے اُنہوں نے ایک ایجنٹ سے چودہ لاکھ روپے میں لیبیا کے راستے اٹلی تک پہنچنے کی بات کی تھی اور اس پرخطر غیرقانونی سفر پر روانہ ہوگئے تھے۔ آمیر کے مطابق لیبیا کے شہر طرابلس پہنچنے تک ان کا طاہر اللہ کے ساتھ فون پر رابطہ قائم تھا لیکن پھراس کے ساتھ گھروالوں کا رابطہ منقطع ہوا جو ابھی تک بحال نہ ہوسکا۔

طاہر کی والدہ ایک زندہ لاش بنی ہے

آمیر نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ طاہر کی والدہ کا ہردن ان کے غم میں گزرتا ہے وہ ایک زندہ لاش بنی ہے۔ گھر میں سب  طاہر کی جدائی پر بہت پریشان ہے اور اذیت میں مبتلا ہو چکے ہیں کیونکہ ابھی تک اس کے بارے میں کوئی مستند معلومات ہمیں نہیں ملی۔

اس حوالے سے کوئی بااعتماد معلومات دستیاب نہیں ہے کہ باجوڑ کے کتنے لوگ لیبیا کے سرکاری جیلوں یا مختلف ایجنٹس کے نجی جیلوں میں  قید ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق  پچاس کے قریب باجوڑ کے نوجوان وہاں پر قید ہے ہیں  جن کی رہائی کے بدلے ایجنٹس  کی طرف سے رقم کا  مطالبہ کیا جارہا ہے۔

تحصیل خار کے گاؤں صدیق آباد کے سید بادشاہ کا بھی جوان سالہ بیٹا  محمد یونس لیبیا کے ایک نجی جیل میں قید ہے  اور بقول ان کے ان سے ایک ایجنٹ پندرہ لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کررہا ہے جو اس کی بس  کی بات نہیں۔  پہلے سے انہوں نے اپنے بیٹے پر تیرہ لاکھ  خرچہ کیا ہے جو انہوں نے لوگوں سے ادھار لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے بیٹے کی سلامتی کے لئے سب گھر والے پریشان ہے کیونکہ ان کو قید میں نہ صحیح طریقے سے کھانا دیا جاتا ہے اور نہ ان کی دوسری ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اس لئے وہ حکومت اور دوسرے  غیر سرکاری تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان سمیت لیبیا کے جیلوں میں قید تمام  قیدیوں کی رہائی کے لئے فوری اقدامات اٹھائے جائے۔

یورپ جانا اب ایک فیشن بن گیا ہے

طاہر نے کیوں یورپ جانے کا فیصلہ کیا ؟ اس سوال کے جواب میں آمیر نے بتایا کہ ان کا یہاں پراچھا گزز بسر ہو رہا تھا انہوں نے اپنے بیٹے پر بارہویں جماعت تک  تعلیم حاصل کی لیکن باجوڑ کے کئی لوگ یورپ گئے ہیں جن کی مالی حالت میں بہتری آئی ہے اور یہاں پر اب یہ ایک فیشن بنا ہے کہ ہر ایک یورپ جانے کی فکر میں ہے کہ ہر طریقے سے ہو وہ یہاں سے چلا جائے اور یورپ پہنچ سکیں۔ طاہر کو ان کے دوستوں اورایجنٹس نے کہا تھا کہ وہ چند مہینوں  کے بعد یورپ میں ہونگے اور پھر وہاں پراُن کی زندگی بہتر ہوگی۔ ان باتوں سے اس کو ورغلایا گیا لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔

طاہر باجوڑ کا اکیلا نوجوان نہیں جس نے اس پرخطر غیرقانونی طریقے سے یورپ جانے کا فیصلہ کیا تھا بلکہ باجوڑ میں کئی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنi زندگی کو خطرے میں ڈال کر غیر قانونی طور پریورپ جانے کا فیصلہ کیا۔

40 سالہ فرمان اللہ نے بھی دو دفعہ غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کی لیکن وہ راستے میں پکڑے گئے اور پاکستان ڈی پورٹ ہوئے۔ فرمان نے اپنے اس غیرقانونی سفر کے دوران اپنی مشکلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بارانہوں نے ایجنٹ کے ساتھ دولاکھ روپے پربات کی کہ وہ ان کو ترکی تک پہنچائے گا۔ جبکہ وہاں سے یورپ تک سفر کے لئے الگ پیسے دینے تھے۔ انہوں نے کوئٹہ جاکر وہاں سے ایرانی سرحد تک سفرکیا اس کے بعد سفر کے مشکلات شروع ہوئے کیونکہ اُن کے بقول وہاں سے ایجنٹ نے غیرقانونی طور پر ایران پہنچانا تھا۔ جب ہم ایرانی سرحد پہنچ گئے تو وہاں پرسخت سیکورٹی تھی اور ریگستان کا علاقہ تھا۔ ہم نے سرحد پار کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوئے۔ ہمیں واپس لایا گیا اور دوسرے دن پھرایرانی سرحد لے گئے۔ اس بار ریت کے طوفان میں ہمیں سرحد پار کرایا گیا ہم پرشدید فائرنگ بھی ہوئی لیکن بچ نکلے۔

ایک موٹرکار میں بارہ بارہ بندوں کو بٹھایا جاتا تھا

زاہدان سے تہران تک موٹرکار اور دوسرے گاڑیوں کے زریعے کچے راستوں سے پہنچایا گیا۔ تہران سے ترکی کی سرحد تک سفر اور بھی مشکل تھا کیونکہ ایک موٹرکار میں بارہ بارہ بندوں کو بٹھایا جاتا تھا جس میں سانس لینا بھی مشکل تھا لیکن ہمیں وہاں پراسی طریقے سے لے جایا گیا۔ اس میں کوئی جانے سے انکار بھی نہیں کرسکتا کیونکہ پھروہاں پرچھوڑ دیتا ہے۔

راستے میں اتنا خوارک دیا جاتا ہے تاکہ بس انسان صرف زندہ رہے اور پانی تو بس صرف اتنا کہ حلق گیلا رہے۔ خیر اس مشکل کے بعد ہم ترکی کے سرحد وان پہنچ گئے لیکن وہاں پرسرحد پارکرنا اوربھی مشکل تھا کیونکہ صرف رات کے وقت سفرہو سکتا تھا اور وہ بھی پہاڑ پرپیدل۔ اس میں گرنے کا زیادہ خدشہ تھا اور کئی ساتھی گرگئے جس کو اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔ وہاں پر بس قیامت جیسا منظر ہوتا ہے ہر ایک اپنی جان بچانے اور آگے جانے کی سوچ میں ہوتا ہے۔ ہمیں وہاں پرانسانی ڈھانچے بھی ملے شاید یہ ان افراد کے تھے جو راستے میں جاں بحق ہوئے تھے۔

مجھے ترکی پولیس نے پکڑ کر چند دنوں میں پاکستان ڈی پورٹ کردیا

دو دن پیدل سفر کرنے کے بعد ہم وان پہنچ گئے وہاں پر ہمیں ایک کچے مکان میں ٹھہرایا اوراس کے بعد پھر استنبول کا سفرشروع ہوا۔ جب ہم استنبول پہنچ گئے تو وہاں پر بد قسمتی سے مجھے ترکی پولیس نے پکڑ کر چند دنوں میں پاکستان ڈی پورٹ کردیا۔

جب واپس گاؤں آیا تو چند مہینے بعد دوبارہ جانے کا ارادہ کیا کیونکہ باجوڑ میں کوئی روزگار نہیں تھا اور امن کی صورتحال بھی ٹھیک نہیں تھی۔ جب اسی طرح دوبارہ اپنے سفر کا آغاز کیا تو اس بارمشکلات اور بھی زیادہ تھی اور ایران بارڈر پربہت زیادہ سختی تھی۔ ہمارے ساتھ جو دوسرے لڑکے تھے وہ راستے کے مشکلات دیکھ کرروتے تھے اور مجھے کہتے تھے کہ آپ کو ہمارا سلام ہے کہ آپ نے ایک باریہ سب مشکلات دیکھ کردوبارہ آنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس دفعہ ہمیں ایران کے پولیس نے پکڑا اورجیل بھیج دیا۔ وہاں پربہت سخت دن گزارے کسی قسم کی سہولت نہ تھی اور ہم یہی دعا کرتے تھے کہ کاش ہم ایک دفعہ اپنے ملک واپس جا سکیں۔ ایران میں 25 دن جیل کاٹنے کے بعد ہمیں واپس پاکستان بھیج دیا گیا۔ فرمان نے کہا کہ میں نے موت کو دو بار اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اس لئے میں باجوڑ کے تمام نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ غیرقانونی راستوں سے یورپ جانے کی بجائے قانونی طریقہ کار اختیار کریں تاکہ کسی بھی مشکل سے بچ سکیں۔

یونانی حکام کے مطابق غیر قانونی تارکین وطن کے اعداد و شمار میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے ملک کئی مسائل کا شکارہے۔ پچھلے سال سات فروری کو یونان کے ایک اعلی قیادت نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ملاقات میں غیرقانونی پاکستانیوں کی آمد کی روک تھام کے لئے پاکستانیوں کو پانچ سال کے ویزے جاری کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ یونانی وفد نے بتایاکہ اس وقت میں ملک میں 60 ہزار سے زیادہ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ پاکستانی موجود ہے جو کہ غیر قانونی طریقے سے یورپ کے دوسرے ممالک جانے کے لئے انتظار کررہے ہیں۔

اگرکوئی پاکستان میں محنت کریں تو بھی ترقی کرسکتا ہے

یوتھ آف باجوڑ کے چیئرمین اور سماجی کارکن انجینئر ریحان زیب نے بتایا کہ ایسے بہت سے لوگ ان کے ساتھ رابطے کرتے ہیں کہ ان کا بیٹا یا بھائی ایران، ترکی، یا افریقی ممالک میں پھنس گئے ہیں اور اب وہ جیل میں ہے یا کسی حادثے کا شکار ہوکر راستے میں یا مختلف ہسپتالوں میں زخمی یا مردہ حالت میں پڑے ہیں۔ اُن کے بقول اُن تک رسائی نہیں ہو پارہی اور اس حصے میں کافی زیادہ مسائل درپیش ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم اس کوشش میں ہے کہ لوگوں کو درپیش مسائل کم کرسکے اور کئی لوگ جوحادثوں کا شکار ہوئے تھے یا جیلوں میں قید تھے اس کو حکومت اورسماجی تنظیموں کے مدد سے اپنے گھروں کوپہنچائے ہیں جس کی ایک مثال دو ماہ پہلے ایک نوجوان تھا جو حادثہ کا شکار ہوا تھا اور لیبیا کے ایک ہسپتال میں زخمی حالت میں پڑا تھا۔ اس مسئلے کو سوشل میڈیا پراٹھایا اور صحافیوں کے ساتھ بھی اس خبرکو شئیرکیا تھا۔حکومت تک بھی پہنچایا اوراللہ کے رحم و کرم سے اس زخمی کو گھر پہنچایا اب وہ صحت مند ہے۔

ان کے مطابق کہ یہ ایک بہت غلط رجحان ہمارے لوگوں میں پیدا ہوا ہے کہ غیر قانونی طریقے سے یورپ جاکر بہتر زندگی گزار سکتے ہیں لیکن یہ سوچ سو فیصد غلط ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں لوگ سوشل میڈیا پریورپ یا دیگرترقی یافتہ ممالک کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر اس طرف مائل ہو جاتے ہیں لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہوتا ہے۔ اُنہوں نے بتایاکہ اگرکوئی پاکستان میں محنت کریں تو بھی ترقی کرسکتا ہے لیکن ہمارے لوگ یہ نہیں کرتے۔ اگر ایک طرف غیر قانونی طریقے سے باہر جانے میں ایجنٹ کا کردار ہے تو دوسری طرف ہمارے علاقے میں غربت ہے اور اس وجہ سے والدین بھی اس میں زمہ دار ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو پیسوں کے خاطر لالچ میں آکر س کی زندگیاں خطرے میں ڈالتے ہیں۔

ہرسال باجوڑ سے 1500 کے لگ بھگ نوجوان غیرقانونی طریقے سے یورپ جاتے ہیں

باجوڑ سے یورپی ممالک کو غیرقانونی طریقے سے جانے کا سلسلہ 2000 میں شروع ہوا لیکن 2015 کے بعد اس رجحان میں اضافہ ہوا۔ ان غیر قانونی سفر کرنے والے افراد کے بارے میں کوئی مستند ڈیٹا موجود نہیں ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق ہرسال باجوڑ سے 1500 کے لگ بھگ نوجوان غیرقانونی طریقے سے یورپ جاتے ہیں۔ اسی طرح یہ سلسلہ ہزاروں تک پہنچ گیا ہے جس میں اکثر ڈی پورٹ ہوتے ہیں اورکچھ تو موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کے اس رجحان میں ہرسال اضافہ ہورہا ہے۔

احسان اللہ خان پچھلے دس سالوں سے ایک صحافی کے طورپرکام کررہا ہے وہ وقتا فو قتا ایسے لوگوں کی واقعات کورپورٹ کرتے ہیں جو غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن راستے میں مختلف مشکلات وحادثات کا شکار ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مہینے میں ایک سٹوری ضرور اس پرکرتے ہیں کیونکہ باجوڑ سے غربت اور ذہنی تناؤ کے وجہ سے لوگوں ان پر خطرسفر پرجانے کے لئے تیا رہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان واقعات کو مسلسل سوشل میڈیا ،اخبارات اور ٹی وی نیوز چینل پر رپورٹ کرتے ہیں لیکن بد قسمتی کی بات ہے کہ پھر بھی غیرقانونی طریقوں سے یورپی ممالک کو نوجوانوں کے جانے میں کمی نہیں آئی۔

احسان کے بقول ان لوگوں میں بہت کم لوگ یورپ جانے میں کامیاب ہوتے ہیں لیکن پھر وہاں پہنچنے کے بعد بھی ان کو کئی طرح کے مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ کئی لوگوں کے والدین کو ہم نے دیکھا ہے کہ اب بھی وہ اپنے بچوں کو یہاں سے پیسے بیھج دیتے ہیں۔ ایک اور افسوسناک بات یہ ہے کہ یورپ جانے والے لوگوں کے والدین سود پرلوگوں سے پیسے لیتے ہے۔ پھر اس کی ادائیگی نہیں کرسکتے جس کی وجہ سے روزانہ کے بنیاد پرجھگڑے ہوتے ہیں جس سے تنازعات میں بہت اضافہ ہوا ہے۔

حکومت نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کریں

احسان نے مزید کہا کہ وہ لوگوں میں اس غیر قانونی سفر کے مشکلات کے متعلق آگاہی پیدا کرنے کی کوششیں کررہے ہیں اورسوشل میڈیا کہ ساتھ ساتھ دوسرے ذرائع بھی استعمال کررہے ہیں لیکن اس کے لئے نہ صرف حکومت بلکہ سول سوسائٹی کے لوگوں کوبھی متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔

ریحان بتاتے ہیں کہ انہوں نے پچھلی حکومت کے دوران نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے کئی پروپوزل پرکام کیا تھا جس میں کامیاب جوان پروگرام بھی شامل تھا لیکن پھردرمیان میں حکومت ختم ہوئی لیکن ہم اب بھی کوشش کررہے ہیں کہ حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کرائیں کہ نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کریں۔ اس سلسلے میں حکومت کو چاہئے کہ ٹھوس اقدامات اٹھائے تاکہ غیر قانونی طورپریورپ جانے کی حوصلہ شکنی ہوسکیں۔

آمیر نے بتایا کہ اپنے بیٹے کے رہائی کے لئے انہوں نے پریس کانفرنس سمیت مختلف فورم پر آواز اٹھایا ہے لیکن اس کی ابھی تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ اس لئے انہوں نے تمام والدین پر زور دیا کہ اپنے بچوں کے بارے میں کسی قسم کے لاپرواہی نہ برتے بلکہ اس کی مکمل نگرانی کرین کیونکہ اگر ہم طاہر کے نگرانی کرتے تو آج نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ جبکہ نوجوانوں سے بھی میری اپیل ہے کہ اپنی زندگی خود موت کی منہ میں نہ ڈالیں اور اپنے ملک میں محنت مزدوری کریں لیکن غیر قانونی طریقے سے باہر کے ممالک جانے سے گریز کریں۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button