خیبر پختونخوا کی خواتین صحافی عملی صحافت سے کیوں دور ہونے لگی
کامران علی شاہ
صحافت کے ساتھ جنون کی حد تک شوق ہے اسلئے ریڈیو پاکستان سے بطور نیوز کاسٹر صحافتی کیریئر کا آغاز کیا جس کو آگے بڑھاتے ہوئے آج نجی ٹی وی چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہوں۔ والدین کی طرف سے مکمل سپورٹ ہے لیکن پختون روایات کی وجہ سے خاندان کے لوگ ٹی وی چینل میں کام کرنے کو بے حیائی سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ میری منگنی ہو چکی ہے تو سسرال والے بھی ٹی وی میں کام کرنے کو اچھا نہیں سمجھتے۔ فیلڈ میں اکثر اوقات مرد صحافیوں کا طنز بھرا لہجہ بھی ایک مسئلہ ہے جبکہ سینئر خواتین رپورٹرز کا حسد ہر چیز سے بڑھ کر ہے لیکن اس کے باوجود بھی میں ہمت نہیں ہارونگی۔
یہ الفاظ ہے نجی ٹی وی چینل میں کام کرنے والی علشبہ خٹک کے جو بی ایس جرنلزم کررہی ہیں اور ساتھ میں عملی میدان میں صحافت بھی کر رہی ہے۔ علشبہ خٹک کہتی ہے ہمارے معاشرے میں خواتین کو بحیثیت صحافی قبول نہین کیا جاتا اگر کوئی اپنے دم پر صحافت کے میدان میں کامیابی حاصل بھی کرلیں تو بھی اس کا آگے بڑھتا ہوا ہر قدم بہت سے حوالوں سے احتیاط کا متقاضی ہوتا ہے۔
صحافت کے عملی میدان میں خواتین کی کم تعداد پر بات کرتے ہوئے جامعہ پشاور شعبہ صحافت کے چیئر مین فیض اللہ جان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے نے تاحال خواتین کو بطور صحافی تسلیم نہیں کیا ہے جو تعداد کی کمی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اسطرح دفاتر میں ایک خاتون صحافی کے لئے سازگار ماحول ،دفتری اوقات کار اور اسی طرح کئی ایک مسائل کے ساتھ انہیں صنفی امتیاز کے مسئلے کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور ایسے رپورٹنگ بیٹس جیسے سیاست ،پارلیمان ،سول سیکرٹریٹ،کرائم، کورٹس جس میں کوئی صحافی نام پیدا کرسکتا ہے وہ خواتین کو نہیں دئے جاتے اور بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہ خواتین ایسے بیٹس کور کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔
یہ بھی پڑھیں۔ خیبر پختونخوا کی خواتین صحافیوں میں ڈیجیٹل میڈیا کا رجحان بڑھنے لگا
جامعات سے ڈگریاں حاصل کرنے والی لڑکیوں کی شرح کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں فیض اللہ جان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس کلاسز میں 30/70 کا ریشو رکھا جاتا ہے جس کا مطلب 70 لڑکے اور 30 لڑکیاں کلاس میں ہوتی ہے۔ اسی فارمولے کو اگر کلکولیٹ کیا جائے تو صوبے کے سرکاری جامعات سے سالانہ 210 لڑکیاں جرنلزم کی ڈگریاں حاصل کرتی ہیں جس میں انٹرشپ کی حد تک لڑکیوں کی کافی تعداد صحافتی اداروں میں آجاتی ہے لیکن 5 سے 6 لڑکیاں صحافت کو بطور پیشہ اپناتی ہیں۔
معاشرتی اقدار ،صنفی امتیاز، دفاترمیں نامناسب ماحول اور خواتین کے لئے سہولیات کے فقدان سمیت دیگر عوامل کی وجہ سے صوبائی دارالحکومت پشاور میں خواتین صحافیوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ پشاور پریس کلب کے ممبرز لسٹ کے مطابق مختلف اخبارات ،ٹی وی ،ریڈیو اور ڈیجیٹل میڈیا میں کام کرنے والی خواتین صحافیوں کی تعداد 20 سے زیادہ نہیں.
صوبہ بھر میں پشاور سمیت ،سیٹل و قبائلی اضلاع میں کام کرنے والی خواتین صحافیوں کی تعداد 35 سے زیادہ نہیں۔ ڈی آئی خان ،شمالی وزیرستان ،ایبٹ آباد ،سوات اور ضلع خیبرمیں ایکا دوکا خواتین بطور صحافی ڈیجیٹل میڈیا میں کام کر رہی جن کے لئے بھی حالات سازگار نہیں۔
وزیرستان سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی رضیہ محسود نے بتایا سب سے پہلے ہمارا معاشرہ ہمیں تسلیم نہیں کرتا معاشرے کی نظر میں خواتین کو صرف گھر تک محدود رکھنا ہے۔
یہ کہا جاتا ہے کہ خواتین کا صحافت میں کیا کام ہے اگر کسی جگہ کوئی مسئلہ کور کرنے جائے تو بہت سے نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ معاشرے کے اور لوگوں کی کی طرح مرد صحافی بھی خواتین کو تسلیم نہیں کرتے یہاں تک کہ ہمارے کام کی وجہ سے ہمارے ساتھ حسد کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے پریس کلب کے دروازے ہم پر بند کردئے جاتے ہیں۔ اضلاع میں خواتین صحافیوں کی تعداد ویسے بھی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ جہاں ایکا دوکا خواتین ہے بھی تو انہیں نہ تو پریس کلب اور نہ کسی یونین میں ممبر شپ دی جارہی ہے۔ ایسے رویوں اور حالات کی وجہ سےعملی صحافت میں خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
قبائلی علاقوں کے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ٹرائبل یونین آف جرنلسٹ (ٹی یو جے )کے سابق اور میران شاہ پریس کلب کے موجودہ صدر صفدر داوڑ نے بتایا کہ قبائلی علاقوں کے روایات کے مطابق خواتین کےحوالے سے سماجی مسائل کی رپورٹنگ کے لئے خواتین صحافیوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ٹرابیل یونین آف جرنلسٹ ہو یا پریس کلب ہم خواتین صحافیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تاکہ مسائل کےحل میں مرد صحافیوں کے شانہ بشانہ کام کر سکے۔
صفدر داوڑ کا کہنا تھا کہ یونین یا پریس کلب ممبر شپ کے لئے جو قواعد و ضوابط مرد صحافیوں کے لیے ہیں ہم کوشش کرتے ہیں خواتین کے لئے اس میں بھی مزید نرمی کی جائے تاہم سوشل میڈیا کے حوالے سے قواعد بنائے جا رہے ہیں کہ کس طرح اور کونسا راستہ اختیار کرکے ان کو ممبر شپ دی جائے۔
پشاور میں نجی ٹی وی چینل کی بیورو چیف اور سینئر صحافی فرزانہ علی عملی صحافت میں خواتین کی کم تعداد سے متعلق کہتی ہے کہ جس تعداد کے ساتھ جامعات سے لڑکیاں جرنلزم کرکے فارغ ہورہی ہے اس کے مقابلے میں عملی میدان میں خواتین نہ ہونے کے برابر ہے۔ فرزانہ علی کہتی ہیں جرنلزم سے فارغ لڑکیوں میں صلاحیت بھی ہے اور کام کرنے کا شوق بھی لیکن معاشرتی روایات کی وجہ سے اکثر لڑکیاں کیمرے پر آنے سے کتراتی ہیں۔ بہت سی لڑکیوں کے والدین یا خاندان کے دوسرے افراد ٹی وی پر آنے کو شوبز سے جڑتے ہیں اور یہاں کام کرنے والی لڑکی کو بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس طرح ایک بڑا مسئلہ اوقات کار کا بھی ہے کہ خواتین صبح 8 سے شام 4 بجے کی ڈیوٹی ٹائمنگ کو پسند کرتی ہے اور اس کے بعد کے اوقات کی ایک تو گھر سے اجازت نہیں ہوتی اور دوسری بات کہ پھر گھر پہنچانا بھی انکے لئے بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔
خیبر پختونخوا میں ایک یا دو خواتین کے علاوہ اخبارات کے ساتھ کوئی خاتون کام نہیں کر رہی ہے جبکہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی ٹی وی چینل کے ساتھ کام کرنے والی لڑکیوں کا ایک مسئلہ تو وقت کا ہے۔ دوسرا دفتری ماحول کا اور تیسرا اور سب سے اہم مسئلہ معاوضہ کا ہے کہ یہاں بھی جو معاوضہ دیا جاتا ہے اور جو پابندیاں ہیں اس میں اکثر خواتین کام کرنا پسند نہیں کرتی جس کی وجہ سے خواتین کی کمی کو بہت زیادہ محسوس کیا جاتا ہے۔
خیبر یونین آف جرنلسٹ کے صدر ناصر حسین کے مطابق یونین میں خواتین ممبران کی تعداد 10 یا 15 سے زیادہ نہیں ہے۔ معاشرے میں خواتین کے مسائل پر کام کرنے کے لئے خواتین صحافیوں کا ہونا بہت ضروری ہے لیکن خیبر پختونخوا میں میڈیا میں خواتین کے لئے مواقع نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے تعداد بھی انتہائی کم ہے۔ یونین کی جانب سے کوشش کی جارہی ہے کہ خواتین کے لئے دفاتر میں سازگار ماحول ،یونین اور پریس کلب کی سطح پر سہولیات فراہم کی جائے تاکہ خواتین اس پیشے کی طرف راعب ہوسکے۔ اس طرح خواتین صحافیوں کو یونین اور پریس کلب میں الیکشن لڑنے کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین اس شعبے کی طرف آسکے۔
ناصر حسین نے بھی وہی بات دہرائی کہ خیبر پختونخوا کے روایات بھی ایک اہم عنصر ہے جس کی وجہ سے خواتین عملی صحافت میں کم آرہی ہوتی ہے۔ کیونکہ اخبارات میں مرد صحافیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں رہی ڈاون سائزنگ سے سینکڑوں صحافی بے روزگار ہوگئے ہیں تو ایسے میں خواتین کو کہا موقعہ ملے گا۔ جبکہ الیکٹرانک میڈیا میں سکرین پر آنے کی وجہ سے اکثر خواتین اس فیلڈ سے دور ہو رہی ہے۔
پشاور میں ایک اخبار کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر اور پشاورپریس کلب کے صدر ارشد عزیز ملک نے خواتین کی صحافت میں کم تعداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صرف صحافت نہیں دوسرے شعبوں میں بھی خواتین کی تعداد انتہائی کم ہے۔ تاہم کوشش کی جارہی ہے کہ صحافت میں خواتین کی تعداد بڑھانے کے لئے انہیں اس جانب راعب کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرتی رویئے، کام کے اوقات کار بہت بڑے مسائل ہے جس کی وجہ سے خواتین اس طرف رخ نہیں کرتی۔ جہاں تک پریس کلب ممبر شپ کا معاملہ ہے کسی بھی ادارے یا منتخب باڈی کے کچھ اصول اور قواعد و ضوابط ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر وہ ادارے چلتے ہیں۔ پشاور پریس کلب میں ممبر شپ کا ایک طریقہ کار ہے جو مرد و خواتین کےلئے یکساں ہیں جس میں رجسٹریشن سے لیکر ممبر شپ تک چار سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے تاہم اکثر خواتین کی ممبر شپ پراسس تو درکنار عملی صحافت کے میدان سے بھی بہت کم عرصہ میں آوٹ ہوجاتی ہے جس کی وجہ یا تو جلدی شادی ہے یا کسی اور شعبہ میں انہیں نوکری مل جاتی ہے اور پراسس پورا نہ ہونے کی وجہ سے ممبر شپ درمیان میں رہ جاتا ہے۔
ہماری کوشش ہے کہ خواتین صحافت کے میدان میں آگے جائے جس کے لئے مختلف ادارو ں کے تعاون سے انکے استعداد کار بڑھانے کے لئے ورکشاپس اور سیمنار منعقد کئے جاتے ہیں لیکن اس میں خواتین بہت کم شرکت کرتی ہیں جس سے بھی انکے آگے بڑھنے کے راستے مسدود ہوجاتے ہیں۔
صحافت میں خواتین کے کم تعداد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے محکمہ اطلاعات خیبر پختونخوا کے پریس رجسٹرار انصار خلیجی کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے محکمہ اطلاعات کا کوئی کردار نہیں بنتا۔ مختلف معاشرتی و سماجی رکاوٹیں ہیں جس کی وجہ سے صحافت کے شعبہ میں خواتین کی تعداد انتہائی کم ہے۔ تاہم محکمہ اطلاعات کی حدتک ہم خواتین کی حوصلہ افزائی کے لئے انہیں مردوں کے مساوی حقوق دیتے ہیں اور کسی بھی موقعہ پر خواتین کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔ وہ مراعات جو ایک مرد صحافی کو محکمہ اطلاعات کی جانب سے دیے جاتے ہے وہ خواتین صحافیوں کے لئے مساوی ہے۔