لائف سٹائل

افغانستان میں افیون کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟

 

عارف خان

سال 2022 افغانستان میں افیون کی کاشت کے لئے اہم اور امدن کے لحاظ سے بہت پُرکشش رہا۔ سال 2022 میں افیون سے حاصل ہونے والی آمدنی 1 ہزار 360 ملین ڈالر یعنی 360 ارب سے زائد ہوئی۔ 15 اگست 2021 کو افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد ملک میں سخت قسم کی پالیسیاں اپنائی گئی اور کچھ سخت اقدامات کئے گئے جس سے افغان باشندوں کی نہ صرف پریشیانیوں میں اضافہ ہوا بلکہ ان کا زریعہ معاش بھی محدود کردیا گیا۔

افغان طالبان کی جانب سے افغانستان میں پوست کی فصل کی کاشت اور منشیات کی بیرون ممالک سمگلنگ پر پابندی کے اعلان کے ساتھ افغانستان کے لوگوں میں ایک ہلچل سی پیدا ہو گئی تھی۔ طالبان کی جانب سے ملک میں 3 اپریل 2022 کو افیون پوست کی کاش پر پابندی لگائی گئی مگر متبادل کے طور پر آج تک ان افراد کو کوئی دوسرا روزگار فراہم نہیں کیا جاسکا۔ تاہم جولائی 2022 میں پوست کی کٹائی کا آخری سیزن ختم ہوا جس کی وجہ سے مارچ 2023 میں طالبان کی جانب سے افیون پوسٹ پر ٹیکس ختم ہوا اور تاجروں کو سٹاک ملک سے باہر منتقل کرنے کے لئے دس ماہ کی مہلت دی گئی۔ اسی طرح مارچ 2023 کو بھنگ پر پابندی لگائی گئی۔ افغانستان میں پوست کی کاشت پر پابندی کے باعث پوست کاشت کرنے والے کاشتکاروں کو شدید مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔

افغانستان دنیا بھر میں افیون کی کاشت اور پیداوار کے لئے مشہور

کاشتکاروں نے پوست کی بجائے گندم اور دیگر اجناس کاشت کرنا شروع کیں تاہم پوست سے حاصل ہونے والی آمدن کے مقابلے میں دیگر اجناس سے انتہائی کم آمدن ہوئی۔ دوسری جانب افغانستان میں پوست کی کاشت کم ہونے کے اثرات عالمی مارکیٹ میں افیون کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں دیکھنے کو ملی۔ افغانستان کو دنیا بھر میں افیون کی کاشت اور پیداوار کے لئے جانا جاتا ہے۔ افغانستان میں طالبان دورحکومت سے قبل افیون کی کاشت بڑے پیمانے پر کی جاتی تھی اور دنیا بھر میں سپلائی کی جاتی تھیِ۔ افیون افغانستان کے لوگوں کا بہت بڑا ذریعہ معاش تصور کیا جا تا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2020 میں افغانستان، میکسیکو اور میانمار میں افیون کی پیداوار کا تخمینہ افیون کی عالمی پیداوار کا تقریباً 96 فیصد تھا، جس میں صرف افغانستان کا حصہ 85 فیصد بنتا ہے۔ افغانستان میں افیون پوست کی کاشت سے ہیروئن بھی بنائی اور دنیا بھر میں سپلائی کی جاتی ہے۔

یونائٹیڈ نیشن آفس ان ڈرگ اینڈ کرائم کی سال 2023 کی سروے رپورٹ کے مطابق 2023 میں پوست کی کاشت اور افیون کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اپریل 2022 میں طالبان کی جانب سے "پوست کی کاشت اور تمام قسم کے منشیات” پر پابندی کے اعلان کے بعد ملک کے تمام حصوں میں افیون پوست کی کاشت میں ڈرامائی طور پر کمی ہوئی۔ اور خاص طور پر کچھ صوبوں میں جہاں کئی سال سے پوست کی غیر قانونی کاشت کی جاتی تھی وہاں پیدوار انتہائی کم ہوگئی ہے۔ افغانستان میں افیون کا زیر کاشت رقبہ 95 فیصد کم ہو کر صرف 10ہزار800 ہیکٹر رہ گیا ہے۔ 2022 میں افیون کی پیدوار 6 ہزار200 ٹن تھی تاہم 2023 میں پیداوار 95 فیصد کم ہو کر 333 ٹن رہ گئی۔ 2023 میں پوست سے 24 سے 38 ٹن ہیروئن حاصل ہوئی جبکہ 2022 میں ہیروئن کی مقدار 350 سے 380 ٹن تھی۔ افغانستان میں کئی دہائیوں سے افیون پوست دیہی آبادی کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ 2022 میں افیون پوست کی کاشت سے حاصل ہونے والی آمدنی ملک کے پورے زرعی شعبے کی مالیت کے 29 فیصد کے برابر تھی۔

ایک کلو گرام خشک افیون کی قیمت 408 امریکی ڈالر تک پہنچ گئی

2022 کے آخر سے 2023 تک افیون کی فارم گیٹ قیمت میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا۔ اگست 2023 تک ایک کلو گرام خشک افیون کی قیمت میں 5 گنا اضافہ ہوا اور اوسطاً 408 امریکی ڈالر تک پہنچ گئی جو کہ طالبان کی افغانستان میں حکومت آنے سے قبل کافی کم تھی۔ 2022میں پوست کی کاشتکاری سے وابستہ کسانوں کی آمدنی میں بھی 92 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ پابندی سے قبل کسانوں کی جانب سے افیون کے کاروبار سے منسلک تاجر 1 ہزار 360 ملین امریکی ڈالر کا کاروبار کرتے تھے جو کہ اب 2023 میں 110 ملین امریکی ڈالر تک رہ گیا ہے۔

افیون (افیون، مارفین اور ہیروئن) کی پیداوار افغانستان کی سب سے بڑی اور قابل بھروسہ غیر قانونی اقتصادی سرگرمی رہی ہے۔ گزشتہ سال تک ہیروئن کی تیاری اور سمگلنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی ان کسانوں کی آمدنی سے زیادہ تھی جو افیون کی کاشت کرتے تھے اورصرف ہیروئن کی برآمدات کی مالیت افغانستان کی اشیا اور خدمات کی قانونی برآمدات کی قدر سے زیادہ تھی۔

افیون کی کاشت میں کمی سے عالمی منڈی میں قلت

سروے رپورٹ کے مطابق افغانستان میں افیون پوست کی کاشت پر پابندی کے باعث ہیروئن کی عالمی منڈی جس کو افیون پوست کی سپلائی افغانستان سے کی جاتی تھی کو شدید قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ طالبان کی جانب سے 2000 اور 2001 میں بھی اس قسم کی پابندی عائد کی گئی تاہم اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے تھے کیونکہ مارکیٹ میں افیون کی وافر مقدار موجود تھی تاہم صرف 2001 میں افیون کی کاشت متاثر ہوئی تھی۔

افیون کی کاشت میں کمی افیون کی کاشت کرنے والے تمام بڑے صوبوں میں دیکھی گئی ہے سب سے اہم صوبہ ہلمند میں پوست کی کاشت میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔ سال 2022 میں ہلمند میں 1لاکھ 22 ہزار ہیکٹر پر افیون پوست کی کاشت کی گئی تھی جو کہ زیر کاشت قومی رقبے کا 50 فیصد بنتا ہے۔ تاہم 2023 میں پوست کی کاشت 142 ہیکٹر پر کی گئی جو صوبے کے رقبے کا ایک فیصد حصہ بنتا ہے۔

افغانستان میں پوست کی کاشت پر پابندی کے باوجود رواں سال صوبہ قندھار میں افیون پوست کی کاشت سب سے زیادہ ہوئی ہے تاہم 2022 کے مقابلے میں پھر بھی بہت کم ہے۔ پابندی کے بعد دیگر صوبوں کی نسبت سال 2023 میں قندھار ہے۔ افغانستان میں پوست سے پاک صوبوں کی تعداد 2023 میں دوگنی ہو گئی ہے۔ سال 2022 میں پوست سے پاک صوبوں کی تعداد 11 تھی جو کہ اب 2023 میں دوگنی ہوکر 24 ہو گئی ہے اور افغانستان کے 34صوبوں میں سے 24کو پوست سے پاک قرار دیا گیا ہے۔ سروے رپورٹ کے مطابق صوبہ کو پوست سے پاک اس وقت سمجھا جاتا ہے جہاں پوست کی کاشت 100 ہیکٹر سے کم ہو۔ صوبہ بامیان ، ڈے کنڈی ، کابل ،کپیسہ ، لوگر ، پروان ، پنجشیر ، وردک ، نورستان، کندوز ، تخر ، بگلان،جاوزجان ، ساماگن ،خوست ، پکتیا ، غزنی ، پکتیکا اور حیرات کو پوست سے پاک صوبہ قرار دیا گیا ہے۔

گندم کی آمدن پوست کی فصل کی آمدنی کی جگہ نہیں لے سکتی

سروے رپورٹ کے مطابق گندم کی آمدن کبھی بھی افیوں پوست کی فصل کی آمدنی کی جگہ نہیں لے سکتی۔ افیون پوست کی کاشت سے حاصل ہونے والی آمدنی گندم کی کاشت سے کافی زیادہ ہوتی ہے۔ سال 2023 میں گندم سے فی ہیکٹر آمدنی 770 یو ایس ڈالر تھی جبکہ اس کے مقابلے میں افیون سے فی ہیکٹر دس ہزار امریکی ڈالر کی آمدنی حاصل کی گئی۔

یو این او ڈی سی کی ماضی کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ افغانستان میں افیون پوست کی کاشت کے پیچھے بہت سے عوامل کار فرما ہیں جن میں سماجی و اقتصادی مسائل ،غربت، کم معاشی مواقع اور منڈیوں تک محدود رسائی شامل ہے۔ یو این او ڈی سی کے اس سے پہلے ہونے والے سروے کے مطابق زیادہ تر کسان جنہوں نے افیون پوست کی کاشت کی تھی وہ ایسے دیہاتوں میں رہتے تھے جہاں بنیادی انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے اور حالات زندگی بھی کافی مخدوش رہے ہیں۔ عام طور پر وہ دیہات جہاں افیون پوست کی کاشت کی جاتی تھی وہاں کے لوگوں کو بنیادی سہولیات بجلی ، سکولوں، خواندگی کے پروگرامزدیگر دیہاتوں کے مقابلے میں کم میسر تھے۔

سروے رپورٹ کے مطابق اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں واپسی کے بعد اور اپریل 2022 میں افیون پر پابندی کے اعلان کے بعد کسانوں کی مجموعی سماجی و اقتصادی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ مئی اور اکتوبر 2023 کے درمیان ایک اندازے کے مطابق 15.3 ملین افغانی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار رہے۔ بشمول ان 3.4 ملین افغانوں کے جنہیں مستقل انسانی امداد کی ضرورت ہے تاکہ اپنی بھوک مٹا سکیں۔ افغانستان میں کئی دہائیوں سے جاری تنازعات، کلائمیٹ چینج اور شدید معاشی بحران ، بڑے پیمانے پربیروزگاری،پیسوں کی کمی اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے 29.2 ملین افراد کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔

طالبان کو جہاں پوست کے کھیت نظر آتے ہیں انہیں تباہ کر دیا جاتا ہے

افغانستان طویل عرصے سے افیوں کی غیر قانونی منڈیوں کے لئے سب سے بڑا افیون پوست کا پیدواری ملک رہا ہے۔طالبان کی جانب سے اپریل 2022 میں افیون پوست کی کاشت پر پابندی کے اعلان کے بعد عالمی منڈی میں افیون کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ، تاہم یہ اضافہ مختصر وقت اور ممکنہ طور پر طالبان کی جانب سے پابندی کے اعلان کے بعد غیر یقینی صورتحال پیدا ہو نے کے باعث ہوا ہے۔ اگست 2023 میں افیون کی قیمت بیس سال کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی تھی اور فی کلو کے حساب سے 408 امریکی ڈالر میں فروخت کی گئی۔

سال 2021 میں طالبان کی افغانستان پر حکومت کے بعد سال 2022 میں افیون کی کاشت میں 32 فیصد اضافہ ہوا۔ سال 2021 میں افیون کی کاشت 1 لاکھ 77ہزار ہیکٹر سے بڑھ کر سال 2022 میں 2لاکھ 33ہزار ہیکٹر پر کاشت کی گئی۔
سال 2021 کے مقابلے میں سال 2022 میں افیون کی فروخت سے کسانوں کی امدنی میں تین گنا اضافہ ہوا۔ سال 2021 میں افیون کی فروخت سے کسانوں کی آمدنی 425 ملین امریکی ڈالر سے تین گنا زیادہ ہو کر 2022 میں 1.4 بلین امریکی ڈالر ہو گئی جو کہ زرعی شعبے کی 2021 کی مالیت کے 29 فیصد کے برابر ہے۔

سال 2022 میں ان صوبوں میں افیون کی کاشت میں اضافہ ہوا جن میں افیون کی کاشت سب سے زیادہ کی جاتی تھی۔ ہلمند ، قندھار ، بدغیس ، ارزگان ،فرح، ننگھار ، بلخ ، فریاب ، بدخشان ، نمروز میں ایک فیصد سے 52 فیصد تک افیون کی کاشت میں اضافہ ہوا۔

طالبان کی جانب سے افغانستان میں افیون اور دیگر منشیات کی کاشت پر پابندی کے بعد سے طالبان کے پٹرول یونٹ مختلف علاقوں کا دورہ کرتے ہیں اور جہاں انہیں پوست کے کھیت نظر آتے ہیں انہیں تباہ کر دیا جاتا ہے۔ اس اقدام سے افغانوں کی ایک بڑی آبادی کو بھوک اور افلاس کی طرف دھکیلا جا رہا ہے کیونکہ ملک میں افراتفری ہے اور طالبان کے پاس افیون کی کاشت اور کاروبار سے منسلک لوگوں کے لیے متبادل ذریعہ معاش کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button