لائف سٹائل

ضلع کرم: ماحولیاتی تبدیلی اور شکار کی وجہ سے ہجرتی پرندوں کا آنا کم ہوگیا ہے

 

ریحان محمد

لوئر کرم کے علاقے اوچت گاؤں کے رہائشی 50 سالہ ظاہر خان تیس برسوں سے دریائے کرم کے کنارے مرغابی کونج اور بٹیر کا شکار کرتے آرہے ہیں۔ وہ ہر سال 50 ہزار روپے خرچ کرکے ایک مصنوعی تالاب بناتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر شکار کرتے ہیں، وہ بتاتے ہیں:”میں دس سال قبل روزانہ بیس سے پچیس مرغابیاں شکار کرتا تھا لیکن اب مہینے بھر میں بمشکل پانچ ہاتھ لگتی ہیں اور کونج تو جیسے ختم ہی ہوگئی ہے۔”

ضلع کرّم میں پرندوں کا کاروبار کرنے والے ساجدالرحمان نے بتایا کہ پہلے وہ مقامی پرندوں کے ساتھ شکار میں زندہ پکڑی جانے والی مرغابی اور کونج بھی فروخت کرتے تھے۔

افغانستان اور پاکستان کے درمیان واقع ‘کوہ سفید’ کا پہاڑی سلسلہ دریائے کرّم کا ماخذ ہے اور وسط ایشیاء اور سائبیریا سے آنے والے پرندوں کی اہم راہ گذر ہے۔ مہمان پرندے یہاں پہنچ کر دریائے کرّم کے کناروں اور گرد ونواح میں قدرتی و مصنوعی تالابوں پر عارضی قیام کرتے ہیں۔ یہ جس راستے سے پاکستان آتے ہیں اسے ‘فلائی وے فور’ یا ‘گرین روٹ’ کہا جاتا ہے۔

یہ پرندے ہر سال اگست کے بعد شدید سردیاں شروع ہونے سے قبل ہی سائبیریا چھوڑ دیتے ہیں ‘گرین روٹ’ پر افغانستان سے کرّم کے راستے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور شدید گرمیوں کے آغاز سے پہلے اپریل مئی میں انہی راستوں پر واپس لوٹ جاتے ہیں۔

انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یوسی این) کے 16-2015 کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہر سال ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی تعداد تقریبا ایک ملین کے لگ بھگ ہے جو بین الاقوامی فلائی وے نمبر 4گرین روٹ کے ذریعے سائبیریا سے افغانستان، قراقرم، ہندوکش، کو ہ سلیمان اور دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ 4500 کلو میٹر کی طویل مسافت کے بعد پاکستانی علاقوں میں آتے ہیں۔ ان مہمان پرندوں میں مختلف انواع کی مرغابیاں، مگھ، قاز،کونجیں، حواصل، لم ڈھینگ، بگلے، تلور اور باز شامل ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ حیاتیات کے جریدے میں 2018ء میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مکالے کے مطابق ایک ہزار 855 نسلوں کے دس لاکھ پرندے چترال کے پہاڑوں سے سندھ کے دریاؤں اور پنجاب کے میدانوں تک خوراک کی تلاش اور افزائش نسل کیلئے ہجرت کرتے ہیں۔

ضلع کرم میں تدریس سے وابستہ ماہر حیاتیات سیف اللہ بتاتے ہیں کہ شمال مغرب سے آنے والی خاکی مرغابی، مولائٹس (سبز سر والی مرغابی)، گیز(بطخ کی نسل ہے)، یوریشین چڑیاں، کونج، دیومزل کرین، سسیاں (کونج کی ایک قسم)، گریبس(جل ککڑی) مختلف اقسام کے بگلے (اسپونبل اسٹورکس وغیرہ) پاکستان کے علاوہ بھارتی ساحلوں کی طرف بھی جاتے ہیں۔

عالمی ادارہ برائے جنگلی حیات (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مطابق پاکستان میں جانوروں، مہاجر اور مقامی پرندوں اور پودوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لئے بارہ لاکھ ہیکٹر رقبے پر 26 نیشنل پارک، پچاس لاکھ ہیکٹر پر72 وائلڈ لائف سینکچوریاں، 66 گیم ریزرو(شکار سے محفوظ علاقے)، 19 رامسر پروٹیکٹڈ جھیلیں اور نو محفوظ ساحلی علاقے موجود ہیں۔

تاہم سیف اللہ کا کہنا تھا کہ کرّم سمیت پشتون بیلٹ میں بے تحاشہ شکار ہوتا رہا ہے اس لیے اب یہ پرندے بھارتی ساحلوں کا زیادہ رخ کرتے ہیں، خاص طور پر مولائٹس کی تو نسل ہی معدوم ہونے لگی ہے۔
الیاس خان بیس برسوں سے دنیا بھر میں پرندوں کا کاروبار کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ کونج دو ہزار سے دس ہزار روپے،مرغابی پانچ سو سے پانچ ہزار اور سیسیاں و طوطی پانچ سے بیس ہزار تک بیچتے تھے مگر اب ہجرتی پرندے بہت کم ہو گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پنجاب و سندھ میں شکاری، پرندوں کو نشہ آور دوا ڈالتے ہیں اور پکڑ لیتے ہیں۔ ایسا پرندہ شکار کے بعد جلد مر جاتا ہے جو افزائش نسل یا خیبرپختونخوا اور ضلع کرم کے راستے واپس ہجرت کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
ماہر حیاتیات سیف اللہ نے تصدیق کی کہ شکار میں کیمیائی مواد کے استعمال، خوراک میں صنعتی فضلے زرعی دواؤں اور آبی آلودگی سے مہمان پرندوں کو بڑا خطرہ ہے۔
شکاری اکرام الدین کا ماننا ہے کہ دہشتگردی کے دوران اسلحے کے بڑے پیمانے پر استعمال اور غیر قانونی شکار کے باعث پرندوں نے آنا بند کر دیا ہے۔
رحمن گل کرم کے بگن بازار میں زرعی ادویات بیجتے اور خود بھی زمیندار ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ باغات اورسبزیوں میں مارچ کے مہینے میں پیسٹی سائیڈ استعمال ہوتی ہیں۔ اسی طرح گندم کو جنوری اور فروری میں کھاد دی جاتی ہے، انہیں مہینوں کے آس پاس مہمان پرندے یہاں زیادہ ہوتے ہیں۔

بین الاقوامی ادارہ برڈ لائف انٹرنیشنل کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق ہر آٹھ میں سے ایک پرندے کی نسل کو معدومیت کا خطرہ لاحق ہے۔ ہجرت کرنے والے آبی پرندے زیادہ خطرے میں ہیں۔
ضلعی افسر زراعت منہاج علی کا کہنا ہے کہ ضلع کا کل رقبہ آٹھ لاکھ 34ہزار 988 ایکڑ ہے، جس میں ایک لاکھ 44 ہزار 48 ایکڑ زمین قابل کاشت ہے، لیکن گزشتہ دس سال سے کوہ سفید پر برف زیادہ عرصہ نہیں رہتی یہاں بارشیں کم اور چشمے خشک ہونے سے پانی کی قلت ہے اس لئے زیر کاشت زمین میں کافی کمی آئی ہے اور 70 فیصد زمینیں خالی پڑی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ضلع کرم میں پانی کا مقدار اور زرعی زمین زیادہ ہونے کی وجہ سے ان ہجرتی پرندوں کا مسکن بھی محفوظ تھا لیکن اب ان کی مسکن کو نقصان کی وجہ سے یہاں زیادہ رخ نہیں کرتے۔

ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسرحسین کا کہنا ہے کہ ضلع کی 21 فیصد اراضی پر جنگلات ہیں، جس میں 20 فیصد کمیونل فارسٹ یا شاملاتی جائیدادوں پر جنگلات، ایک فیصد ریزر فارسٹ جبکہ ضلع کرم میں پروٹیکٹڈ فارسٹ بالکل موجود نہیں ہے۔ ان کمیونل فارسٹ سے مقامی لوگ گھریلوی ضروریات کیلئے درخت کاٹتے ہیں جس پر محکمہ جنگلات کی جانب سے پابندی نہیں ہے جبکہ بڑے پیمانے پر یعنی خرید و فروخت کیلئے ڈپٹی کمشنر اور محکمہ جنگلات سے اجازت لینا ہوگا جس کا 20 فیصد منافع حکومت کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ لیکن ضلع کرم میں گھریلو ضرورت کیلئے بھی بہت زیادہ پیمانے پر جنگلات کی کٹائی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضلع کرم میں دس سال پہلے تک 30 فیصد کے زیادہ رقبے پر کمیونل فارسٹ تھے جس کی وجہ سے ہر جگہ میٹھے پانی کے چشمے موجود تھے اور دریا میں پانی بھی زیادہ تھا۔ جس میں ہجرتی پرندوں کا مسکن آسان تھا۔
لیکن اب آبادی بڑھ گئی ہے، ایندھن پوراکرنے کے لیے جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے پرندوں کے ساتھ دوسرے جانوروں کا مسکن بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔

لوئر کرم سب ڈویژن میں اڑھائی سال سے محکمہ جنگلی حیات کے افسر منیر خان کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع میں انضمام سے پہلے جنگلی حیات کے شکار پر پابندی کا کوئی مؤاثر انتظام نہیں تھا تاہم اب تحفظ جنگلی حیات کا کام شروع ہو گیاہے، ضلع کرم میں تمام جنگلی حیات کو قانونی تحفظ حاصل ہے جبکہ ہجرت کرنے والے پرندوں کے بغیر لائسنس شکار کی کسی کو اجازت نہیں ہے جبکہ لائسنس کیئے قومی شناختی کی کوپی اور فیس کی رسید جمع کرکے لائسنس جاری کیا جاتا ہے جس کا سالانہ فیس بھی لیا جاتا ہے۔

منیر خان کا کہنا ہے کہ ضلع کرم میں مارچ 2021ء سے اب تک 988 شکاریوں کو شوٹنگ لائسنس جاری کئے گئے ہیں۔ لائسنس کی سالانہ فیس پانچ ہزار روپے ہے اور لائسنس کے تحت ہجرتی پرندوں کے شکار کا بھی اجازت ہے، لیکن شکار کیلئے ہفتے اور سال میں مخصوص ایام ہوتے ہیں۔ غیر قانونی شکاریوں کو موقع کے مطابق جرمانہ کرتے ہیں جس میں اب تک تین ہزار سے لیکر بیس ہزار کا چلان شامل ہیں۔ جبکہ محکمہ وائلڈ لائف ابھی متعارف ہوا ہے اس وجہ سے لوگوں کے ساتھ زیادہ سختی سے کام نہیں لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ابھی تک کسی بھی غیر قانونی شکاری کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔

”انہوں نے کہا کہ مہمان پرندوں کا شکار اکثر رات یا صبح کے اوقات میں کیا جاتا ہے ہمارے پاس سٹاف کی کمی اور پہاڑ و دیگر مسائل کے باعث اس طرح کےشکار کی نگرانی میں مشکلات ہیں”
انہوں نے بتایا کہ گھروں میں پرندے پالنے اور بازاروں میں فروخت کیلئے الگ لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔ پچھلے سال ضلع کرم میں 19 لاکھ روپے لائسنس اور جرمانوں کی مد میں ریونیو جمع کیا گیا ہے۔ جبکہ رواں سال یہ 16 لاکھ روپے کے قریب ہیں۔

محکمہ جنگلی حیات کے ضلعی افسر منصف علی کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی، آلودگی اور خوراک و جنگلات کی کمی سے ہجر کرنے والے پرندوں کو زیادہ مشکلات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ضلع کرم میں تقریباً تین سال پہلے محکمہ جنگلی حیات نے کام شروع کیا ہے جس میں ڈويژنل دفاتر میں عملے کی کمی اور عوام میں آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے بھی غیرقانونی شکاریوں کے خلاف کاروائی کرنے میں مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ کیونکہ ضلع کرم ایک وسیع اور پہاڑی علاقہ ہے عملے کی کمی کی وجہ سے غیر قانونی شکاریوں کے خلاف بروقت کاروائی میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button