افغان پناہ گزین کے لیے عارضی کیمپ، ‘ہم کوئی مستقل بستی نہیں بنا رہے’
شاہین آفریدی
خیبر پختونخوا سمیت ملک کے دیگر صوبوں میں ان لاکھوں افغان پناہ گزینوں کے لیے عارضی کیمپ بنائے جا رہے ہیں جنہیں 31 اکتوبر کے بعد پاکستان سے نکال دیا جائے گا۔
پاکستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اکتوبر کے اوائل میں کہا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق 1.7 ملین افغان باشندے ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں جبری بے دخلی کا سامنا ہے۔
ان پناہ گزین کے لیے خیبر پختونخوا کے پشاور، ہری پور، نوشہرہ اور لنڈیکوتل میں خصوصی اںخلا کے مراکز قائم کئے جائیں گے۔
اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر پشاور محمد زبیر خان نے بتایا کہ ہم کوئی مستقل بستی نہیں بنا رہے ہیں جبکہ یہ عارضی کیمپ افغان پناہ گزین کے لیے افغانستان جانے میں راہداری کا کردار ادا کریں گے، افغان پناہ گزین ان عارضی کیمپوں میں کچھ عرصے کے لیے رہیں گے اور ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد انہیں افغانستان بھیج دیا جائے گا۔
اس پلان کے مطابق ضلعی انتظامیہ اور پولیس حکام کو غیر قانونی طور پر آباد افغان باشندوں کو گرفتار کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر پشاور محمد زبیر کا کہنا ہے کہ سکیورٹی حکام خیبر پختونخوا میں ہیں اور نئے افغان مہاجرین کے بارے میں معلومات اکٹھی کر رہے ہیں۔
‘صرف ہمارے پشاور ڈویژن میں تقریباً پانچ ہزار غیر ملکیوں کی نشاندہی ہوئی ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ہم نے غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت کے لیے پولیس کی سطح پر اپنی ٹیمیں تعینات کر دی ہیں۔ ہم ان لوگوں کو ڈی پورٹ نہیں کرتے جن کے پاس دستاویزات اور ویزہ ہے۔’
دوسری جانب اقوام متحدہ نے پاکستان سے افغان پناہ گزین کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ افغان طالبان نے بھی افغان باشندوں کا پاکستان سے ملک بدری کے منصوبے پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے اسے ‘غیر انسانی’ اور ‘ناقابل قبول’ قرار دیا۔
اس سلسلے میں گزشتہ روز پشاور میں افغانستان کے قونصل جنرل حافظ محب اللہ اور گورنر خیبر پختونخوا غلام علی کے درمیان افغان مہاجرین کے انخلا کے حوالے سے ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر حافظ محب اللہ کا کہنا ہے کہ یہ حکومت پاکستان کا یکطرفہ فیصلہ ہے، دونوں حکومتوں کے درمیان ایک کمیٹی بنائی جائے اور افغان مہاجرین کو باوقار طریقے سے ان کے ملک واپس بھیجا جائے۔
حافظ محب اللہ کے بقول افغان باشندوں کو بازاروں یا راستوں پر روکنا، ان سے پوچھ گچھ کرنا یا ان کو جیل میں ڈالنا غیر قانونی عمل ہے، گزشتہ روز بھی میں نے خیبر پختونخوا کے ساتھ اس موضوع پر بات کی ہے کہ پاکستان اور امارات اسلامی ایسی کمیٹیاں تشکیل دے گی جو مختلف کیٹیگری میں افغان پناہ گزین کی نشاندہی کرے اور غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو ملک بدر کرے جبکہ غیر قانونی مقیم افغان باشندوں کو پہلے اطلاع دی جائے تاکہ وہ ملک چھوڑنے کی تیار کریں۔
حافظ محب اللہ کا مزید کہنا ہے کہ حال ہی میں پاکستان سے واپس آنے والے خاندانوں کو ہنگامی پناہ، صحت، خوراک اور مالی امداد فراہم کرنے کے لیے افغانستان کی سرحد کے قریب خصوصی کیمپ بنائے گئے ہیں۔