صحت

دیربالا میں ٹی بی کے مریضوں میں اضافہ ہونے لگا

 

 زاہد جان دیروی

دیربالا میں ٹی بی کے مریضوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ عام ٹی بی کے علاوہ اب ایم ڈی آر ٹی بی نے بھی سر اٹھا لیا۔ فوکل پرسن ٹی بی صاحبزادہ امتیاز کا کہنا ہے کہ انکے پاس دو سال دو ہزار بائیس میں ڈی ایچ کیو ہسپتال دیر میں جنرل او پی ڈی  میں نو سو چوراسی مشتبہ ٹی بی والے مریض آئے تھے اور ٹیسٹ کرانے کے بعد صرف ڈی ایچ کیو ہسپتال میں رجسٹرڈ ٹی بی مریضوں کی تعداد دو سو اکیاسی تھی۔

انہوں نے کہا کہ رواں برس اکتوبر کے مہینے تک ایک ہزار مشتبہ کیسز میں سے رجسٹرڈ ٹی بی مریضوں کی تعداد دو سو پندرہ ہے۔ ٹی بی مریضوں کی تعداد اس سے قبل پہلے چند درجن ہوا کرتی تھی۔

شاو سے تعلق رکھنے والے عطا نے بتایا کہ انکی بیوی کو چند سال قبل ٹی بی کا مرض لاحق ہوا لیکن اس بارے میں کم علمی اور لاپرواہی کی وجہ سے انکی اہلیہ کو بروقت پتہ نہ چل سکا۔ عطا نے کہا کہ وہ بیوی کے مرض کو سینے اور کھانسی کی عام بیماری سمجھ بیٹھے اور کھانسی ، سینے کا عام علاج کراتے رہے۔

بعد میں جب انکو علم ہوا تو انہوں نے مردان میں قائم ٹی بی ہسپتال اور پشاور سے علاج شروع کرایا اور بیماری میں شدت آنے کے بعد کئی مہینوں تک لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں بیوی کا علاج کیا لیکن تب تک بہت دیر ہوگئی تھی اور انکی بیوی اس مرض سے لڑتے لڑتے جاں بحق ہوگئی۔

عطا کا کہنا تھا کہ بیوی کے بعد اب انکی ندرہ سالہ بیٹی بھی ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہوچکی ہے لیکن جب اسے سینے میں تکلیف اور کھانسی مسلسل شروع ہوئی تو انہوں نے فورا ان کا ٹی بی ٹیسٹ کروایا جس میں تشخیص ہوئی کہ انکی بیٹی کو ٹی بی کا مرض لاحق ہوچکا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بیٹی کو ٹی بی کا ایک اور قسم ملٹی ڈرگ ریزسسٹنٹ (ایم ڈی اڑ) تشخیص ہوا ہے، جس کا انکو زیادہ علم نہیں یہ کونسی قسم کی بیماری ہے۔ تاہم ڈی ایچ کیو ہسپتال دیر ٹی بی سنٹر والوں نے ملاکنڈ ریجن کے (ایم ڈی آر)  کے واحد سنٹر سوات بھیج دیا جہاں سے اب بیٹی کا علاج جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب انکی اہلیہ کا انتقال ہوا تو اس وقت انکی یہ بیٹی دو سال کی تھی شاید بیٹی کو بھی والدہ سے ٹی بی کا مرض لاحق ہوا ہوگا۔

طبی ماہرین کے مطابق ٹی بی ایک خاص قسم کے بیکٹیریا سے لاحق ہوتا ہے جو متاثرہ شخص کے کھانسنے اور چھینکنے سے ہوا میں پھیل کر دوسروں تک منتقل ہوتا ہے۔

فوکل پرسن ٹی بی صاحبزادہ امتیاز کا کہنا ہے کہ ٹی بی مرض کے پھیلنے کے کئی وجوہات ہے جن میں غربت اور گنجان آبادی خواہ وہ گھر کے اندر ہو ، سکول ہو یا اور کوئی مقام جہاں پر لوگ ایک ساتھ  رہ رہے ہو۔ پہلے تو کسی کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ مجھے یا میری بیوی، بیٹے ،بیٹی کو ٹی بی کا مرض لاحق ہوا ہے کیونکہ اس بارے عوامی آگہی اور شعور کی کمی ہے۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ لوگ اسے عام کھانسی سمجھ کر اکثر وبیشتر اوقات خاص کر مضافاتی اور دور افتادہ علاقوں میں خود تشخصی ادویات کھا جاتے ہیں۔

ڈاکٹر امتیاز کہتا ہے کہ جب کہیں بھی مریض کی کھانسی مسلسل دو ہفتوں سے زیادہ جاری رہے  تو اسے فوری طور پر ٹی بی سنٹر سے رجوع کرنا چاہئے تاکہ وہاں ان کا باقاعدہ لیبارٹری سے ٹیسٹ کرکے ٹی بی کی تشخیص کی جاسکے۔

ڈاکٹر امتیاز احمد نے کہا کہ ٹی بی موذی مرض ہے جو ایک دوسروں کے ساتھ میل ملاپ کی وجہ سے منتقل ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ٹی بی کے مریض سے بیس دیگر افراد کو یہ مرض منتقل ہوتا ہے جو بہت بڑے خطرے کی علامت ہے اس لئے اس کو ہلکا نہیں لینا چاہئے اور اگر مسلسل کسی کو دو ہفتوں سے زائد سے کھانسی ہورہی ہو تو وہ فوری طور پر ٹی بی سنٹر سے ٹیسٹ کرائیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button