ملک بھر سے افغان باشندوں کا انخلا جاری، چمن بارڈر کے راستے کتنے پناہ گزین چلے گئے؟
حضرت علی عطار
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدرات ہونے والے قومی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کے ختمی فیصلے کے بعد پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل جاری ہے اور اب تک سیکڑوں کی تعداد میں افغان خاندان چمن اور طورخم کے راستے اپنے ملک افغانستان جاچکے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر ضلع چمن کیپٹن (ر) اطہر عباس نے ٹی این این کو بتایا کہ اب تک 15000 کے قریب افغان مہاجرین رضاکارانہ طور اپنے ملک افغانستان جاچکے ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے تاہم اپیکس کمیٹی کے فیصلے کے تناظر میں کوئٹہ سے پولیس کی اضافی نفری چمن پہنچ کر یکم نومبر سے چمن شہر میں غیر ملکی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاون ہوگا۔
یو این ایچ سی آر ضلع چمن کے افیسر سلطان رودی نے ٹی این این کو بتایا کہ بلوچستان میں 8 لاکھ 50 ہزار افغان مہاجرین آباد ہیں جن میں پی او آر کارڈ ہولڈر کی تعداد 3 لاکھ 13 ہزار 643 ہے جبکہ اے سی سی کارڈ ہولڈر کی تعد 2 لاکھ 72 ہزار 246 ہے باقی 2 لاکھ 62 ہزار 111 افراد بغیر دستاویزات کے آباد ہیں۔ سلطان رودی نے اس بات کی تصدیق کی ہے یکم جنوری 2023 سے لیکر اب تک پی او آر کارڈ ہولڈر 1850 فیملیز واپس افغانستان جاچکے ہیں جبکہ حکومت پاکستان کے فیصلے کے بعد اب تک 17500 بغیر دستاویزت کے افغان مہاجرین افغانستان جاچکے ہیں۔ ان کے بقول ہفتے کے دوران 100 سے لیکر 150 خاندان پاکستان چھوڑ رہے ہیں جبکہ روزانہ 750 سے لیکر 800 تک افغان مہاجرین کی واپسی ہورہی ہے۔
ان کے مطابق اب تک چمن اور طور خم بارڈر کے راستے سے 54000 افغان شہری اپنے ملک جا چکے ہیں۔ سلطان رودی نے مزید بتایا کہ سب سے زیادہ 50 فیصد مہاجرین کی انخلا کراچی، 25 سے 30 فیصد تک پنجاب جبکہ 20 فیصد اندرون بلوچستان سے ہورہی ہیں۔
ادھر رواں ماہ کے 8 تاریخ کو نگران وزیر اعلی بلوچستان علی مردان ڈومکی ایک روزہ دورے کے دوران چمن میں ایک قبائلی جرگے سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ افغان مہاجرین کے خلاف اپیکس کیمٹی کا فیصلہ ہے وہ حتمی ہے جبکہ یکم نومبر سے چمن پاک افغان بارڈر پر پاسپورٹ کے شرط لاگو ہوں گے اس فیصلے کے ردعمل میں منعقدہ جرگے کے مشران نے وزیراعلی کے چمن پاک افغان بارڈر پر پاسپورٹ کی شرط لاگو کرنے کی مخالفت کی اور اس پر نظر ثانی کرنے کی اپیل کی۔ اس فیصلے کے بعد پورا شہر سراپا احتجاج بنے اور مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے، 20 اکتوبر پر چمن پاک افغان بارڈر شاہراہ پر افغان مہاجرین کے خلاف جاری کریک ڈاون اور چمن پاک افغان بارڈر پر پاسپورٹ کی شرط لاگو کرنے کے خلاف ایک احتجاجی دھرنا ال پارٹیز انجمن تاجران لغڑی اتحاد اور مقامی قبائل نے دیئے رکھا ہے۔
دھرنے کے ترجمان اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ضلعی سنیئر معاون اولس یار خان اچکزئی نے ٹی این این کو بتایا کہ اور ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ داخل اور خروج کے ٹپے باب دوستی پر نہیں ہوں گے صرف اپ پاسپورٹ لے اور بارڈر پر دیکھائے اور میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ انٹرنیشنل قوانین کے برخلاف عمل ہے کہ اپ بغیر ویزے اور بغیر ایگزیکٹ اور انٹر بارڈر پر سفر کرے، ہمارا مطالبہ ہے کہ تجارت کو مزید فروغ اور پیدل امدورفت کو مزید اسان بنایا جائے۔
دوسری جانب نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا ہےکہ حکومت کا الٹی میٹم صرف افغان باشندوں کے لیے نہیں، تمام غیرقانونی مقیم غیر ملکیوں کے لیے ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ہم نے غیر قانونی مقیم افراد سے متعلق بات کی تھی لیکن اس کا غلط پیغام چلا گیا، ہم نے غیر قانونی طور پرپاکستان میں موجود افراد کو نکالنے کی بات کی لیکن ایسا پیغام گیا کہ شاید صرف افغان شہریوں کو نکال رہے ہیں۔
نگران وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ کسی کے پاس ریفیوجی کارڈ ہے یا ویزا ہے تو وہ ہمارا مہمان ہے، حکومت ایران سے آنے والے بلوچوں کو بھی نکال رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تاثر دیا جا رہا ہےکہ یہ نسلی معاملہ ہے لیکن یہ نسلی معاملہ نہیں ہے، ہم تمام غیرقانونی طورپر مقیم افراد کو نکالنے کی بات کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو پاکستان چھوڑنے کے لیے 31 اکتوبر تک کی ڈیڈ لائن دی ہے۔