کیا افغان مہاجرین کے جانے سے پشاور میں روزگار کے مواقعے بڑھ جائیں گے؟
آفتاب مہمند
ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ افغان باشندوں کی اپنے ملک واپسی کے بعد پشاور میں تجارت کے مواقع بڑھ جائیں گے تاہم شہر کے معروف تاجروں و کارباریوں کے مطابق پشاور سے افغان باشندوں کے انخلا کا شہر کی تجارت پر کچھ خاص مثبت اثر نہیں پڑے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ پشاور سمیت ملک بھر میں بڑی سطح پر ہو یا چھوٹی سطح پر افغان باشندے گڈز ٹرانسپورٹ، گارمنٹس، ہارڈ وئیر، چائے ڈھابوں، لوبیا، موبائل، ڈرائی فورٹ، سپیئر پارٹس جیسے کاروبار کرتے ہیں۔
اس حوالے سے رابطہ کرنے پر معروف کاروباری شخصیت خالد ایوب نے ٹی این این کو بتایا ایک مرتبہ ایک سابق گورنر کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران ہمارے ایک تاجر رہنما نے انکے سامنے کہا کہ یہ بات درست نہیں کہ افغان باشندوں کے جانے سے یہاں کاروباری مواقع بڑھ جائیں گے۔ مواقعے تب بڑھ جاتے ہیں جب روپیہ کا سرکل چلتا ہو اور غیر ملکی ممالک کے ساتھ تجارت کا پہیہ بھرپور طریقے سے گھومتا رہے۔ پشاور سمیت ملک بھر میں آج کل تجارت و روزگار کی جو حالت ہے افغان باشندوں کے آنے یا جانے سے نہیں، حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کیوجہ سے ہے۔
خالد ایوب کہتے ہیں کہ صرف پشاور میں 25 سے 30 ہزار کاروبار رجسٹرڈ ہیں اسی طرح 70 ہزار تک کاروبار نان رجسٹرڈ ہیں۔ نان رجسٹرڈ کاروباروں میں افغان باشندوں کی شرح 10 سے 15 فیصد تک ہے۔ اگر وہ یہاں سے نکل بھی جائے تو کیا دیگر کاروبار یا کاروباری لوگوں کی حالت ٹھیک ہو جائے گی ایسا ہرگز نہیں۔ کاروباری مواقع تب بڑھ جائیں گے جب پاک، افغان تجارت بڑھے گا اور مارکیٹ میں پیسہ روٹیٹ کرے گا۔
خالد ایوب کے مطابق صرف اگر حیات آباد کی بات کی جائے تو ایک بڑی تعداد میں افغان عوام وہاں مکانات میں کرایوں پر رہائش پذیر ہیں۔ انکے جانے سے مکانات خالی ہو کر اگر کرائے کم بھی ہوجائے تو موجودہ بدترین ملکی معاشی صورتحال اور شدید مہنگائی کے باعث پشاور یا دیگر علاقوں کے لوگ وہاں رہائش اختیار نہیں کر سکتے۔ اسی طرح پراپرٹی کی قیمتیں بھی ضرور گر جائیں گی لیکن کیا ان حالات میں کوئی پراپرٹی لے سکتا ہے، لہذا الٹا پراپرٹی ڈیلرز اور مکانات کے مالکان کا نقصان ہو جائے گا۔
جب تک ہمارے ہاں بیرون ممالک سرمایہ کاری نہیں کرتے کاروبار و تجارت میں بہتری نہیں آسکتی۔ پشاور میں ایسے افغان کاروباری لوگ موجود ہیں کہ انہوں نے کروڑوں کا سرمایہ لگایا ہے اور وہ روس سے کنٹینرز کے ذریعے زیادہ تر مال یہاں لے آتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں الٹا ایک کنٹینر سے 16 لاکھ روپے تک رشوت لیجاتی ہے۔ لوبیا کا مہنگا ہونا بھی اسی ہی کا نتیجہ ہے۔ جہاں کنسٹرکشن انڈسٹری کی بات ہے انکے جانے سے تو الٹا مزکورہ انڈسٹری متاثر ہو جائے گی۔
اس حوالے سے مرکزی تنظیم تاجران خیبر پختونخوا کے سیکرٹری اطلاعات شہزاد صدیقی کہتے ہیں کہ افغان باشندوں کی واپسی سے پشاور میں دوکانوں کے کرائے ضرور کم ہو جائیں گے۔ اسی طرح مکانات کے کرائے بھی تھوڑے بہت کم ہو کر عوام کو فائدہ ضرور ہوگا۔ پشاور یا دیگر علاقوں میں پراپرٹی کی قیمتیں بھی گر جائیں گی لیکن پراپرٹی کے کاروبار پر زیادہ اثر اسلئے نہیں پڑے گا کیونکہ پراپرٹی کی خرید وفروخت پر اتنے ٹیکسز لگائے گئے ہیں کہ وہ پہلے ہی سے نقصان میں ہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ ہنڈی حوالہ کے کاروبار میں ایک بڑی تعداد میں جو افغان باشندے ملوث پائے گئے اسکی وجہ سے ہمارے کرنسی کاروبار کو نقصان ضرور پہنچا ہے۔
شہزاد صدیقی کا کہنا ہے کہ تجارت و روزگار میں بہتری حکومتی درست پالیسیوں کے نتیجے میں آ سکتی ہے۔ دیکھا جائے تو پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے تاجروں و پر کافی ٹیکسز لگائے جا چکے ہیں۔ اسی طرح بجلی مہنگی ہونے سے کارخانوں میں ہر طرح کی اشیائے ضروریہ مہنگی ہو کر تاجروں کو بھی مہنگے داموں پر مل رہا ہے۔ آگے عوام کو بھی مہنگا تو ملنا ہی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ چکے ہیں۔ چونکہ تجارت ٹرانسپورٹیشن کے ذریعے کیجاتی ہے لہذا ٹرانسپورٹ کرایوں میں اضافے کے باعث ہر طرح کی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مزید بڑھ گئی ہیں۔
دنیا کے مضبوط معاشی ممالک میں اگر دیکھا جائے وہاں حکومتیں تاجروں کو بلاسود یا آسان شرائط پر قرضے دیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں صرف اعلانات کئے جاتے ہیں۔ ان حالات میں جہاں ملک کی معاشی صورتحال انتہائی گھمبیر ہے، اوپر سے بے تحاشا مہنگائی بھی ہے۔ اسی طرح روزگار و تجارت کو فروغ دینے کیلئے امن و امان کا قیام بہت ہی ضروری ہے جو کہ یہاں اسی طرح قائم ہی نہیں۔
تجارت کو اگر فروغ ملنا ہے تو ایسا ہرگز نہیں کہ افغان باشندوں کی واپسی سے یہاں تجارت کو ایک بڑی سطح پر فروغ ملے گا۔ یہ محض ہوائی باتیں و کہانیاں ہیں۔ کسی کے آنے یا جانے سے نہیں درست حکومتی پالیسیوں ہی سے تجارت و روزگار کے مواقع بڑھائے جا سکتے ہیں۔