پٹرول مہنگا ہونے کی وجہ سے بی آر ٹی بسوں پر سواریوں کا رش بڑھ گیا
ناہید جہانگیر
پیٹرول کی قیمت زیادہ ہونے سے ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں۔ ہر ڈرائیور من پسند کرایہ وصول کرتا ہے۔ غریب عوام کو جس نے جیسے لوٹا سب چلتا ہے۔
زرمینہ پشاور شہر کی رہائشی ہیں لیکن حیات آباد میں کسی کے گھر گھریلو ملازمہ ہیں۔ وہ ہر صبح گھر سے کام کے لئے جاتی ہیں اس لئے روزانہ رکشہ ،ٹیکسی اور بس کا کرایہ ادا نہیں کر سکتی۔ روزانہ کرایہ مختلف ہوتا ہے ڈرائیور یہی کہتے ہیں کہ پٹرول مہنگا ہونے کے ساتھ ساتھ مہنگائی بھی ہے۔
زرمینہ بی آر ٹی بس میں سفر کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں بی آر ٹی کا کرایہ مناسب اور سروس بہترین ہے لیکن کافی رش ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کو دقت ہوتی ہے۔
دوسری جانب سلیم خان رکشہ ڈرائیور کہتے ہیں کہ وہ بھی بال بچوں والا ہے۔ رکشے کی کمائی سے گھر کا خرچہ پورا نہیں ہوتا اوپر سے سی این جی پر اتنا رش ہوتا ہے تو زیادہ تر پٹرول کا استعمال کرتا ہے۔ کرایہ جو مناسب ہوتا ہے وہی سواری سے مانگتے ہیں لیکن بعض لوگ تو لڑتے ہیں کہ کرایہ کیوں زیادہ مانگ رہے ہو۔
سلیم بتاتے ہیں کہ تھوڑا سا کرایہ اگر کسی کو رہ جاتا ہے ہو تو وہ سواری کو چھوڑ دیتے ہیں لیکن سواریاں ایک روپے تک نہیں چھوڑتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی تو اسی ملک کا رہنے والا ہے اور انکو بھی مہنگائی کا سامنا ہے لیکن سواری کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی اور کرایہ کم کرنے کے لئے لڑتے ہیں۔
سمیرا خالد جو بی ایس کی طالبہ ہیں روزانہ کوہاٹ روڈ سے بی آر ٹی سروس کا استعمال کرتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ وہ اس سروس سے کافی خوش ہیں۔ پہلے وہ وین میں کالج جاتی تھی ماہانہ وین فیس بھی زیادہ ادا کرنا پڑتی اور اس کے ساتھ پورے شہر کا چکر بھی لگاتی کیونکہ وین کا کاکا ایک ایک لڑکی کو گھر سے پک کرتے اور چھٹی کے وقت دوبارہ گھر ایک ایک لڑکی کو چھوڑتے تھے۔ اس سے انکا وقت ضائع ہوجاتا۔ اب بی آر ٹی میں سفر کرتی ہیں وقت کی بچت ہوتی ہے کرایہ بھی کم ہے لیکن رش بہت ہو گیا ہے۔ اس سال پچھلے سال کے مقابلے میں بی آر ٹی میں جگہ نہیں ہوتی ایک یا دو بسیں رش کی وجہ سے چھوڑنی پڑتی ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو آنے والے دنوں میں بس میں جگہ ملنے کے لئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑے گا اور ڈیوٹی پر جانے والوں اور سکول کالج جانے والے طالب علم وقت پر اپنے اپنے ادارے نہیں پہنچ سکیں گے۔ سمیرا ٹرانس پشاور اور خیبر پختونخوا سے اپیل کرتی ہیں کہ کوئی مستقل حل ڈھونڈ لیں بسوں کی تعداد بڑھا کر۔
اس حوالے سے ٹرانس پشاور کی ترجمان صدف کامل نے ٹی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال بسوں میں سفر کرنے والوں کی تعداد 2 لاکھ 80 ہزار تھی جبکہ اس سال 3 لاکھ تک ہوگئی ہے۔ جہاں تک بسوں میں رش کی بات ہے تو تعلیمی اداروں کی گرمیوں کی چھٹیاں ہوتو اس دوران بی آر ٹی میں رش کم ہوتا ہے کیونکہ بی آر ٹی میں سفر کرنے والوں میں طلباء کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جیسے ہی گرمی کی چھٹیاں ختم ہوتی ہیں تو صبح اور دوپہر کے اوقات کار میں بسوں میں کافی رش ہوتا ہے۔ سفر کرنے والوں کی تعداد ستمبر کے مہینے میں تقریبا 3 لاکھ 16 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔
ترجمان نے بسوں کی تعداد کے سوال کے جواب میں کہا کہ بسوں کی تعداد اس وقت 2 سو 44 ہیں جو مختلف روٹس پر فنکشنل ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ڈیٹا جمع کیا جاتا ہے کہ کس روٹ پر مسافروں کی تعداد زیادہ ہے وقت اور بسیں مختص ہیں کہ فلاں روٹس کے لئے اتنی بسیں ہیں اور ایک بس سے دوسرے بس کے آمد کا تعین کیا گیا ہے۔ ریکارڈ کی باقاعدہ مانیٹرنگ کی جاتی ہے اور پھر آگے کا پلان بنایا جاتا ہے۔ اسی ڈیٹا کی بنیاد پر اس کے اگے پلاننگ کی جاتی ہے کہ کون سی روٹ پہ کتنا رش ہے اس پہ کتنی بسیں چلائی جائیں گی۔ بسوں کے درمیانی وقفہ کتنا رکھا جائے گا سٹیشن پر کتنا رش ہوتا ہے اسی حساب سے بسوں کو تقسیم کیا جاتا ہے۔
ترجمان صدف کامل نے کہا کہ بسوں کی تعداد اور مزید روٹس کی تعداد کو بڑھانا ان کے ڈیپارٹمنٹ کا کام نہیں ہے اس کا فیصلہ حکومت نے کرنا ہے۔ پہلے بھی خیبرپختوںخوا حکومت کی جانب سے بسوں سمیت روٹس کی تعداد بھی بڑھائی گئی ہے اور مستقبل میں بھی وہی کریں گے۔ کیونکہ ٹرانس پشاور ایک اپریٹنگ کمپنی ہے جو چیز حکومت کی جانب سے اپروو ہوتی ہے اسکو ٹرانس پشاور کی جانب سے اپریٹ یا لاگو کیا جاتا ہے۔
جیسے روٹس کے اپروول بھی گورنمنٹ کی طرف سے ہوتی ہے کہ فلاں روٹ میں بسیں چلانی ہے وہ ٹرانس پشاور کی طرف سے نہیں ہوتی حکومت کی جانب سے اپروول اجاتی ہے کہ یہ روٹ اپروو ہو چکا ہے اس کو اپریشنلائز کر لیا جاتا ہے۔اسی طرح بسوں کی بھی گورنمنٹ کی طرف سے منظوری آتی ہے اس کو ٹرانس پشاور صرف اپریشنلائز کرتے ہیں۔ بسیز کی تعداد بڑھانا بھی خیبر پختونخوا حکومت کی ذمہ داری ہے۔